میں

بھارت میں حجاب پر ہنگامہ کیوں؟

گزشتہ چند دنوں سے بھارت سے بہت ہی پریشان کن اور مایوس کن خبریں سامنے آ رہی ہیں، خاص طور پر جنوبی ریاست کرناٹک سے کہ جہاں با حجاب مسلمان طالبات کے اسکولوں اور کالجوں میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

بھارت میں 20 کروڑ مسلمان بستے ہیں، یعنی یہ دنیا میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی رکھنے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ کروڑ ہا مسلمانوں کی موجودگی میں حجاب پر پابندی جیسے اقدامات اُن کی مذہبی آزادی کے لیے خطرہ ہیں جبکہ بھارت کے آئین کے تحت انہیں آزادی حاصل ہے۔ اب مسلمانوں میں خوف کی فضا ہے اور انہیں انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے حملوں کا خدشہ ہے۔

نہ صرف پاکستان بلکہ مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی نے بھی اس پابندی کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ  اس سے خواتین کے حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔

ریاست کرناٹک میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے، جی ہاں! وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی کی۔

ویسے یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کوئی ایسا قانون منظور کیا گیا ہے جس سے مسلمانوں کو براہ راست نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس سے پہلے شہریت ترمیمی بل منظور کیا گیا جس کے تحت پڑوسی ممالک کے غیر مسلموں کو بھارت آمد پر ترجیحی بنیادوں پر شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کے لیے ایسی کوئی سہولت نہیں۔ پھر آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کیا گیا، جس کی وجہ سے ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کے دو ٹکڑے ہو گئے اور اس کی امتیازی حیثیت کا بھی خاتمہ کر دیا گیا۔

اب بی جے پی یکساں یونیفارم کا قانون سامنے لا رہی ہے، جسے مسلمان ہندو قوانین نافذ کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ جنوبی ریاست کرناٹک میں یہ قانون منظور ہوتے ہی با حجاب لڑکیوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ ایک طرف انہیں اسکول اور کالجوں میں داخلوں سے روکا جا رہا ہے، زبردستی ان کے حجاب اتروائے جا رہے ہیں اور انتہا پسند ہندو لڑکے انہیں جا بجا تنگ کر رہےہیں۔

ایسی کئی وڈیوز منظرِ عام پر آئی ہیں اور وائرل بھی ہوئی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نہ صرف طالبات بلکہ اساتذہ کو بھی تعلیمی ادارے میں داخل ہوتے ہوئے روکا جا رہا ہے اور ان سے حجاب اتارنے کا مطالبہ کیا جا ر ہا ہے۔ چند طلبہ و اساتذہ حجاب اتار کر داخل ہوئیں اور کچھ ایسی تھیں جنہوں نے گھر واپس جانے کو ترجیح دی۔

لیکن یہ ہنگامہ شروع ہوا کیسے؟

صورت حال تب بگڑی جب پچھلے ہفتے ریاست کے ضلع اڑوپی میں کئی با حجاب مسلمان لڑکیوں نے اپنے کالج میں داخل ہونے سے روکے جانے پر احتجاج کیا۔ ان کے مظاہرے کی وڈیو منظرِ عام پر آئی تو ان کے حق میں آوازیں بھی بلند ہوئیں اور اس پابندی کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ لیکن نہ ان کے کالج نے اور حکومت نے ان کے مطالبات پر کان دھرے اور پھر ایک ہی ہفتے کے دوران کئی ایسے واقعات پیش آئے کہ جہاں لڑکیوں کو صرف حجاب کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں داخل ہونے سے روکا گیا۔ ان اداروں کا کہنا ہے کہ یونیفارم کے نئے قانون کے تحت اب حجاب نہیں پہنا جا سکتا بلکہ سب کو ایک جیسے کپڑے پہن کر اسکول اور کالج آنا ہوگا۔

معاملات تب مزید بگڑ گئے جب انتہا پسند ہندو طلبہ نے مسلمان طالبات کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندو طلبہ کو گلے میں نارنجی چادر لٹکانے کی اجازت ہے جو کھلی مذہبی علامت ہے لیکن مسلمان لڑکیوں کے حجاب زبردستی اتروائے جا رہے ہیں۔

مسلمان کیا کہتے ہیں؟

ضلع شیواموگا کے کرناٹک پبلک اسکول کی طالبہ عالیہ مہر بتاتی ہیں کہ انہیں تقریباً 13 با حجاب لڑکیوں کے ساتھ ایک الگ کمرے میں لے جایا گیا اور کہا گیا کہ وہ اگر حجاب نہیں اتاریں گی تو پری بورڈ امتحانات میں نہیں بیٹھ سکتیں۔ جس پر انہوں نے کہا کہ ہم امتحان نہیں دیں گے کیونکہ ہم حجاب پر کوئی سودے بازی نہیں کر سکتے۔

ایک طالبہ کی والدہ ریشماں بانو کا کہنا ہے کہ حجاب پر پابندی ناقابل قبول ہے۔ یہ ہمارے ایمان و عقیدے کا بنیادی حصہ ہے۔ ہم اپنے بچوں کو اس لیے تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجتے ہیں کہ وہاں ہمارے حقوق کا احترام کیا جائے گا۔ لیکن اسکول کی پرنسپل کا کہنا ہے کہ وہ صرف سرکاری احکامات کی پیروی کر رہے ہیں۔

سیاسی جماعتیں کیا کہتی ہیں؟

بھارت میں حزب اختلاف کی مرکزی جماعت انڈین نیشنل کانگریس نے حجاب پر پابندی کو غیر انسانی قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ حکومت اگلے سال ریاستی انتخابات سے پہلے سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے ایسے اقدامات اٹھا رہی ہے۔

اسی جماعت سے تعلق رکھنے والی کرناٹک کی قانون ساز اسمبلی کی مسلمان رکن کنیز فاطمہ کہتی ہیں کہ ہم سالہا سال سے حجاب پہن رہے ہیں، ہمیں کبھی کسی مسئلے کا سامنا نہیں رہا لیکن اب اچانک بی جے پی اور ہندوتوا گروہوں کے اقدامات سے مسائل کھڑے ہو رہے ہیں۔

بی جے پی کا کہنا ہے کہ حجاب طلبہ میں یکسانیت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یونیفارم کا بنیادی تصور ہی یہی ہے کہ طلبہ کے درمیان کوئی امتیاز نہ رہے۔

آگے کیا ہوگا؟

بہرحال، معاملہ اب عدالت میں ہے گو کہ مسلمان طالبات کو یقین ہے کہ انہیں انصاف ملے گا، لیکن جو ماحول بن چکا ہے وہ بھیانک ہے اور ایک غیر یقینی مستقبل کو ظاہر کرتا ہے۔

کرناٹک میں یہ حالات اچانک پیدا نہیں ہوئے بلکہ پچھلے کئی سالوں کے دوران ریاست میں ہندوتوا سرگرمیوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ انتہا پسند ہندو مذہبی اقلیتوں خاص مسلمانوں اور مسیحیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ جو کمی رہ گئی تھی وہ گزشتہ ماہ ریاستی اسمبلی میں ایک قانون کی منظوری سے پوری ہو گئی ہے، جس کے تحت مذہب کی تبدیلی پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ویکسین نہیں لگواؤں گا!، ورلڈ نمبر وَن کھلاڑی کا پھر اعلان

انٹرویو میں کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری؟