میں

بحیرۂ عرب میں دجّال کا جزیرہ؟

آپ کسی بھی محفل میں بیٹھ جائیں، کسی تقریب میں ہوں یا گلی کے نکڑ پر، "گیان” بانٹنے والوں کی تان برمودا ٹرائی اینگل پر جا کر ٹوٹتی ہے۔ اس جزیرے کی پُر اسراریت کے حوالے سے وہ مبالغہ آرائی کی جاتی ہے کہ اصل برمودا والے سُن لیں تو ہمارے خلاف اعلانِ جنگ کر دیں۔

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے بہت قریب، ہمارے اِسی بحیرۂ عرب میں ایک ایسا جزیرہ ہے جو برمودا سے کہیں زیادہ حیرت انگیز، عجیب و غریب اور پُر اسرار ہے۔ یہ اتنی انوکھی جگہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں اگر دجّال کسی جزیرے سے نمودار ہوا تو وہ یہی ہوگا۔

خیر، یہ تو اللہ جانتا ہے کہ یہ فتنہ کہاں سے نکلے گا لیکن یہ جزیرہ واقعی بہت عجیب ہے۔ ایک ایسی دنیا ہے جسے دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ یہ زمین نہیں ہے بلکہ ہم کسی دوسرے سیّارے پر آ گئے ہیں۔ ہم بات کر رہے ہیں جزیرہ سُقُطریٰ کی۔

یہ جزیرہ ملکِ یمن کا حصہ ہے اور اس کے ساحل سے 400 کلومیٹرز دُور تزویراتی لحاظ سے بہت ہی اہم مقام پر واقع ہے۔ یہ نہ صرف سمندروں بلکہ بر اعظموں کا بھی سنگم ہے۔ سُقُطریٰ کے شمال میں جزیرہ نما عرب پر واقع یمن ہے، مغرب میں برِ اعظم افریقہ کا ملک صومالیہ ہے، جنوب میں بحرِ ہند ہے تو شمال مغرب کی جانب دنیا کا مصروف ترین بحری راستہ ہے، جو ایشیا اور یورپ کے درمیان اہم ترین گزرگاہ ہے۔ ایشیا سے تجارتی بحری جہاز اسی راستے سے خلیجِ عدن میں جاتے ہیں اور پھر بحیرۂ قلزم اور نہرِ سوئز سے ہوتے ہوئے بحیرۂ روم تک پہنچ جاتے ہیں۔

یہ کوئی آتش فشانی جزیرہ نہیں ہے بلکہ یہ کبھی برِ اعظم افریقہ کا حصہ تھا لیکن لاکھوں سال پہلے الگ ہو گیا اور اسی وجہ سے منفرد بھی بن گیا۔ 50 لاکھ سال پہلے جب اس جزیرے کا رابطہ باقی برِ اعظموں سے ٹوٹا تو یہاں جانداروں کا ارتقا بالکل الگ انداز سے اور مکمل طور پر مختلف حالات میں ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج یہاں کے چرند، پرند اور بہت سی نباتات باقی دنیا سے بہت مختلف ہے۔

سُقُطریٰ Biodiversity یعنی حیاتی تنوّع کے لحاظ سے دنیا کے زرخیز ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہ جزیرہ صرف صرف 132 کلومیٹرز لمبا اور 49.7 کلومیٹرز چوڑا ہے لیکن اتنے سے علاقے میں بھی حیوانات اور نباتات کی 700 سے نایاب قسمیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی نباتات تو ایسی ہیں جو دنیا میں کسی دوسری جگہ پر نہیں پائی جاتیں۔

مثلاً یہ درخت دیکھیں، جس کی وجہ سے سُقُطریٰ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اسے کہتے ہیں Dracaena cinnabari یا عام الفاظ میں ڈریگن بلڈ ٹری۔ مقامی لوگ اسے دَم الاخوین یعنی دو بھائیوں کے خون والا درخت کہتے ہیں۔ اتنا منفرد نام ہونے کی وجہ ہے اس کے تنے سے نکلنے والا سرخ رنگ کا عرق۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس درخت کا خون بہہ رہا ہے۔

پرانے زمانے سے ہی اس درخت کے لال گوند کی طلب بہت زیادہ تھی۔ تب لوگ سمجھتے تھے کہ اس میں جادوئی خصوصیات ہیں اس لیے یہ کئی رسومات میں بھی استعمال ہوتا تھا۔ عرب، یونانی، رومی اسے مختلف دواؤں میں بھی استعمال کرتے تھے بلکہ یہ آج بھی مقامی لوگ علاج معالجے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

جدید زمانے میں اس گوند کا استعمال صرف اِن کاموں تک محدود نہیں بلکہ یہ کاسمیٹکس یعنی بناؤ سنگھار کی مصنوعات میں استعمال ہوتا ہے، مثلاً نیل پالش اور لپ اسٹک وغیرہ میں اور ساتھ ہی مختلف دواؤں میں بھی۔

اس جزیرے کے دیگر درخت اور پودے بھی عجیب ہیں۔ اسے دیکھیں یہ Dendrosicyos ہے جسے عام زبان میں بوٹل ٹری کہتے ہیں۔ اس کا بالائی تنا چھوٹا اور تنا موٹا ہوتا ہے۔ پھر Adenium obesum آتا ہے جو ایک زہریلا پودا ہے جس کے پھول بہت ہی خوبصورت ہوتے ہیں۔ اتنے خوبصورت کہ اسے صحرائی گلاب کہتے ہیں۔ اس کے درخت کا تنا بھی موٹا اور بالائی حصہ چھوٹا ہوتا ہے۔ یہاں کی 700 نباتات ایسی ہیں جو دنیا کہیں نہیں پائی جاتیں۔

یہی وجہ ہے کہ 2008ء میں اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے جزیرہ سُقُطریٰ کو World Heritage Site یعنی عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔

اس کے علاوہ ارضیاتی لحاظ سے بھی یہ چھوٹا سا جزیرہ کمال کا ہے۔ سفید ریت کے ساحل، جو پورے مشرق وسطیٰ میں نہیں ملیں گے، یہاں پائے جاتے ہیں۔ 1500 میٹرز تک بلند پہاڑ بھی ہیں، سرسبز و شاداب علاقے بھی، صحرا بھی اور بہت بڑے غار بھی۔ یہاں کا ایک مشہور غار الحوق ہے جو تقریباً تین کلومیٹرز طویل ہے۔ اتنا بڑا غار پورے مشرق وسطیٰ میں کہیں نہیں۔

اسے دنیا کے خوبصورت ترین جزیروں میں سے ایک کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

سُقُطریٰ کی آبادی تقریباً 80 ہزار ہے اور یہ زمانہ قدیم سے آباد نظر ہے کیونکہ اس کے غاروں سے کئی بہت پرانے نقوش ملے ہیں۔ ماضی میں یہ غلامی سے فرار ہونے والوں کی پناہ گاہ بھی تھا۔

یمن میں حالات اچھے نہیں ہیں، خانہ جنگی نے ملک کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے لیکن ملک کے مرکزی علاقوں سے دُور سُقُطریٰ ایک پُر سکون جگہ ہے۔ یمن کے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے یہاں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ شاید اس لیے کیونکہ یہ جزیرہ تزویراتی لحاظ سے بہت اہم ہے۔ فی الحال دونوں ملک عوام کے دل جیت رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی کوششوں کی بدولت یہاں کے عوام کو بجلی، پانی اور گیس جیسی بنیادی سہولیات ملیں۔ پھر امارات کے ذریعے سُقُطریٰ کا پوری دنیا سے فضائی رابطہ بھی آسان ہو گیا ہے۔ بلکہ اب تو لوگ کہتے ہیں کہ سُقُطریٰ  پر عملاً متحدہ عرب امارات کی حکومت ہے۔

دوسری جانب سعودی عرب نے بھی سُقُطریٰ میں کئی تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں اور عوام کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کیے۔ اب تو سُقُطریٰ کے لوگ تعلیم حاصل کرنے اور صحت کی سہولیات پانے کے لیے بیرونِ ملک بھی جا رہے ہیں۔

ماضی میں اس جزیرے کا بیرونی دنیا سے واحد رابطہ دارالحکومت حدیبو کی بندرگاہ کے ذریعے ہوتا تھا جہاں سے یمن کے لیے بحری جہاز چلتے تھے۔ پھر 1999ء میں ہوائی اڈہ تو بنا لیکن رابطہ پھر بھی یمن کے ذریعے ہی ہوتا تھا۔ لیکن 2021ء میں امارات سے براہِ راست پروازیں شروع ہوئیں اور اب سُقُطریٰ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے کھل گیا ہے۔

اس جزیرے کی شہرت جیسے جیسے بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے اس کی سیاحتی امکانات کا فائدہ اٹھانے والے آگے آ رہے ہیں۔ لیکن یہ جزیرہ ماحولیاتی لحاظ سے بہت نازک ہے، اس لیے بے دھڑک سیاحت اس کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاحت میں احتیاط اور حد بندی بہت ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

[وڈیوز] کہانی نئے پرانے کی

‏’خاموش قاتل’ ذیابیطس کی علامات