میں

سری لنکا میں کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟

سری لنکا کا ایک خاندان ایسا ہے جو تقریباً دو دہائیوں سے سیاست پر چھایا ہوا تھا۔ 2005ء سے 2015ء تک مہند راج پکشا ملک میں صدر بنے رہے، پھر وہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے اور اپنے سگے بھائی گوتابیا راج پکشا کو صدر بنا دیا۔ ایک بھائی کو وزیرِ خزانہ بنا دیا گیا تو بیٹے کو کھیل اور نوجوانوں کا وزیر۔ یعنی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور سر کڑاہی میں!

آخر ایسا کیا ہوا کہ آج اسی ملک میں راج پکشا خاندان کو چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی؟ بد عنوانی، نا اہلی کے علاوہ یہ کہانی ہے پاپولسٹ انداز کی سیاست کی، جس نے بالآخر راج پکشا خاندان کا خاتمہ کر دیا۔

سال 2019ء میں راج پکشا خاندان تین چوتھائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ انہیں اور کیا چاہیے تھا؟ اب ملک کا سیاہ سفید ان کے ہاتھ میں تھا۔ فوج سے لے کر معیشت کے تمام پہلوؤں تک سب کچھ۔

راج پکشا برادران (بائیں سے) مہند، چمل اور گوتابیا راج پکشا

لیکن مہند راج پکشا کی کہانی شروع ہوتی ہے تامل ٹائیگرز کے خلاف کارروائیوں سے۔ وہ خانہ جنگی کو ختم کرنے کی وجہ سے ملک میں ایک ہیرو بن کر ابھرے لیکن پھر ان کا جھکاؤ پاپولزم کی طرف ہو گیا۔ اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان کو نفرت کی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے بھارت میں بی جے پی کے ہندو قوم پرست کر رہے ہیں۔

مہند راج پکشا اپنے سیاسی گرو نریندر مودی کے ہمراہ

انہوں نے 2019ء میں دہشت گردوں کے حملوں کا فائدہ اٹھایا اور اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا کر دوبارہ اقتدار حاصل کر لیا۔

لیکن یہ اکثریت کا زعم، یہ رعب، یہ دبدبہ، یہ بدمعاشیاں، غنڈہ گردی، کسی کام نہیں آئے۔ نا اہلی، کرپشن اور سب سے بڑھ کر تقسیم در تقسیم کی سیاست نے نہ صرف ملک کو برباد کر دیا بلکہ راج پکشا خاندان کی سیاست کا بھی خاتمہ کر دیا۔

سری لنکا ان کے دور میں تاریخ کے بد ترین معاشی بحران سے گزرا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، قرضوں کا بوجھ اور خزانہ خالی، یہاں تک کہ بنیادی ضرورت کی چیزیں خریدنے کا بھی پیسہ نہیں بچا۔ یوں سوا 2 کروڑ کی آبادی رکھنے والے ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔

کیونکہ حکومت کے پاس پیسے نہیں، اس لیے نہ ہی پٹرول دستیاب ہے، نہ ہی بجلی اور نہ ادویات جیسی بنیادی چیزیں۔ پھر حکومت نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا اور اب عوام کے پاس ایک ہی راستہ تھا: حکومت کے خلاف میدان میں نکلنا۔

حکومت کے خلاف مظاہروں میں اور شدت آ گئی۔ جو پُر امن تھے، حکومت کے حامی مظاہرین کے تشدد کے بعد وہ بھی بگڑ گئے۔ حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ وزیر اعظم مہند راج پکشا نے استعفا دے دیا۔ ان کے بھائی، باسل، چمل اور بیٹا نمل پہلے ہی اپنی وزارتیں چھوڑ چکے تھے۔

اقتدار ختم ہو جانے کے بعد اب حکومت کے حامی اور سیاست دان عوام کے رحم و کرم پر ہیں۔ انہوں نے سب کچھ جلا ڈالا ہے۔ یہاں تک کہ راج پکشا خاندان کا آبائی گھر بھی۔ ان کے علاوہ ان کی جماعت کے 31 اراکین کے گھر بھی جلائے گئے ہیں۔ مرنے والوں میں پارلیمنٹ کے دو رکن بھی شامل ہیں۔

سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی کی اس کیفیت میں معیشت کی بحالی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ملک میں کرفیو نافذ ہے، شر پسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم ہے۔ راج پکشا خاندان کی آخری "نشانی” صدر گوتابیا راج پکشا ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ ایک عبوری حکومت قائم ہو جائے، جس میں پوزیشن کے لوگ بھی شامل ہوں۔ یوں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت مختلف اداروں ہوں اور سری لنکا اس دلدل سے باہر نکل سکے۔

دیکھیں پاپولسٹ طرز کی سیاست نے سری لنکا جیسے ملک کا کس طرح بیڑا غرق کیا؟ ایک ایسا ملک جس نے خانہ جنگی پر قابو پا لیا تھا لیکن تقسیم اور نفرت کی سیاست کی بدولت اب اس مقام پر پہنچ گیا ہے۔

حکومت کا کام قانون سازی کرنا اور معیشت چلانا تھا، لیکن اسے اپنے مخالفین کے خلاف کارروائیاں کرنے، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کرنے، صحافیوں اور سوِل سوسائٹی کو ہراساں کرنے، مذہبی اور نسلی بنیادوں پر کشیدگی پھیلانے سے ہی فرصت نہیں تھی۔

حکومت ایسے ہی کاموں میں لگی ہوئی تھی اور اُدھر معیشت کا جنازہ نکل رہا تھا۔ ان حالات میں بھی راج پکشا خاندان نے فوج کو خوش کرنے کے لیے اُس کا بجٹ بڑھایا اور ملک کو کچھ اس طرح چلایا کہ جو بھی فائدہ ہو، حکمران خاندان کو پہنچے۔

چین کی مدد سے انفرا اسٹرکچر کے بڑے منصوبوں کے دعوے کیے گئے۔ اس میں راج پکشا خاندان نے اپنے آبائی شہر ہمبنٹوٹا میں ایک بڑی بندرگاہ بھی شامل تھی، لیکن یہ سب منصوبے سفید ہاتھی ثابت ہوئی۔ خوشحالی تو کیا خاک آتی، الٹا سری لنکا چین کا مقروض بن گیا۔

بڑے بڑے دعوے، بڑھکیں، اکثریت کو اپنے ملانے کے لیے ان کو عظمت کے دھوکے میں مبتلا کرنا، سرکاری اور نجی میڈیا ہاؤسز کو اپنے ساتھ ملانا اور ایسی فضا بنانا کہ عوام بے وقوف بنتے رہیں۔ لیکن جب پیٹ پر لات پڑتی ہے تو پھر سب کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔

ویسے یہ سب کچھ آپ کو دیکھا بھالا اور سُنا سُنا لگ رہا ہوگا۔ کوئی بھی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی لیکن یاد رکھنے کی بات ایک ہی ہے، پاپولزم خطرناک ہے، تھوڑی دیر کے چسکوں کے بعد جب حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے تو آپ کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا۔ مذہبی، نسلی یا لسانی تقسیم سے فائدہ حاصل کرنا اور نتائج سے بے پروا ہو کر بے وقوفانہ اقدامات اٹھانے کا نتیجہ کچھ یہی نکلتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

میر جعفر اور میر صادق کون تھے؟

پاکستان اور بھارت میں گرمی کی شدید لہر کیوں؟