میں

کہانی اُس ملک کی جس کا دنیا کے نقشے پر کوئی وجود نہیں

جغرافیہ کی اصطلاح میں جزیرہ اس زمینی حصے کو کہا جاتا ہے جس کے چاروں طرف پانی ہو۔ یہ دنیا جزیروں سے بھری پڑی ہے۔ جھیلوں سے لے کر عظیم سمندروں تک، جزیرے ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جو کسی ایک ہی ملک کا حصہ ہیں یا خود ملک بنے ہوئے ہیں۔ برطانیہ سے لے کر آسٹریلیا اور سری لنکا سے لے کر آئس لینڈ تک، کئی جزیروں کی مثال سامنے ہے۔

لیکن کچھ جزیرے ایسے بھی ہیں جن پر دو مختلف ممالک واقع ہیں۔ مثلاً نیو گِنی کو ہی لے لیں۔ یہ بحر الکاہل میں واقع بہت بڑا جزیرہ ہے جو 7 لاکھ 85 ہزار مربع کلومیٹرز پر پھیلا ہوا ہے۔ اِس جزیرے کا 59 فیصد حصہ ایک آزاد ملک ہے جسے پاپوا نیو گنی کہتے ہیں اور 41 فیصد حصہ انڈونیشیا کے پاس ہے۔

پھر بورنیو، آئرلینڈ اور ہسپانیولا بھی ایسے ہی بڑے جزیرے ہیں جو مختلف حصوں میں تقسیم ہیں۔ لیکن آج ہم جس منقسم جزیرے کی بات کرنے جا رہے ہیں وہ نہ بحرِ الکاہل میں ہے، نہ بحرِ اوقیانوس میں، بلکہ یہ ہے بحیرۂ روم میں، ایشیا، افریقہ اور یورپ کے قریب، تزویراتی طور پر بہت ہی اہم جگہ پر۔ ایک ایسا جزیرہ جو صدیوں سے دنیا بھر کی طاقتوں کے درمیان فٹ بال بنا رہا ہے اور لگتا ہے آگے بھی یہ ہنگامے ختم نہیں ہوں گے۔ ہم بات کر رہے ہیں جزیرہ قبرص کی۔

آپ دنیا کا نقشہ اٹھا کر دیکھیں، آپ کو لگے گا کہ اِس جزیرے پر صرف ایک ہی حکومت ہے جس کا نام ہے جمہوریہ قبرص۔ یہ اقوامِ متحدہ کی رکن بھی ہے اور یورپی یونین کی بھی۔ لیکن حقیقت یہ نہیں، اصل میں یہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہے، ایک جنوبی حصہ جس کی حکومت کو دنیا مانتی ہے اور ایک ہے شمالی قبرص، جس کو صرف ترکی تسلیم کرتا ہے۔ لیکن دنیا مانے یا نہ مانے، حقیقت یہی ہے کہ شمالی قبرص موجود ہے، اس پر تقریباً 50 سال سے ایک الگ حکومت قائم ہے۔

آئیے آج آپ کو اس انوکھے جزیرے کی تاریخ اور تقسیم کی داستان کے بارے میں بتاتے ہیں، جو کافی حد تک ہماری تاریخ سے ملتی جلتی ہے۔

جیسا کہ ہم آپ کو پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ قبرص تزویراتی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس جزیرے پر جو طاقت بھی قبضہ کرتی ہے، اسے بحیرہ روم پر غلبہ حاصل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے سے ہی قبرص پر ہر عالمی طاقت کی نظر رہی ہے۔ قدیم زمانے میں یہ یونانیوں کے قبضے میں رہا، پھر رومی غالب آ گئے اور اسے رومن ایمپائر کا حصہ بنا دیا۔ 653ء میں مسلمانوں نے اس جزیرے پر قبضہ کیا لیکن اِس پر حقیقی اور مضبوط اقتدار عثمانیوں نے قائم کیا، سن 1571ء میں۔ یہ 1878ء تک عثمانیوں کے قبضے میں رہا۔

تب سلطنتِ عثمانیہ کا زوال شروع ہو چکا تھا اور ایک، ایک کر کے مختلف علاقے اس کے ہاتھوں نکلتے جا رہے تھے۔ قبرص بھی نکل گیا اور برطانیہ نے اس پر قبضہ کر لیا۔ پہلی جنگِ عظیم ہارنے کے بعد تو ترکی کا قبرص پر رہا سہا دعویٰ بھی ختم ہو گیا اور یہ جزیرہ برطانیہ کی کراؤن کالونی کا حصہ بن گیا۔

دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا بھر میں آزادی کی ایک زبردست لہر اٹھی۔ قبرص میں بھی ایسا ہی ہوا، یہاں تک کہ 1960ء میں برطانیہ نے اسے آزاد کر دیا۔ اب قبرص آزاد تو تھا لیکن ایک بڑا مسئلہ جنم لے چکا تھا، وہ جو اب تک دبا ہوا تھا۔

اگر آپ قبرص کا مسئلہ سمجھنا چاہتے ہیں تو پاکستان اور ہندوستان کو ذہن میں رکھیں۔ قبرص میں یونانی اکثریت میں تھے اور ترک اقلیت میں۔ یونانی چاہتے تھے کہ قبرص کا الحاق یونان سے ہو اور ترکوں کی خواہش تھی کہ قبرص کو تقسیم کیا جائے اور جن علاقوں میں ترکوں کی اکثریت ہے وہ ترکی میں شامل ہو جائیں۔ یہ تقریباً ویسا ہی مطالبہ تھا جیسا ہندوستان کے مسلمانوں کا تھا کہ جہاں اُن کی اکثریت ہے، ان علاقوں کو پاکستان بنایا جائے۔ ترک اس منصوبے کو ‘تقسیم’ کہتے تھے، بالکل ہماری "تقسیمِ ہند” کی طرح۔

خیر، برطانیہ نے 1959ء میں ترکی اور یونان کی مدد سے قبرص میں ایک آزاد حکومت بنائی، لیکن چند شرطوں کے ساتھ۔ پہلی شرط یہ کہ کوئی بھی یونان یا ترکی کے ساتھ الحاق کی بات نہیں کرے گا اور دوسری یہ کہ برطانیہ کے فوجی اڈے موجود رہیں گے۔ اس معاہدے میں ترکی، یونان اور برطانیہ ضامن بنے۔ اس کو "معاہدۂ زیورخ” کہتے ہیں۔ اب قانون کے مطابق ملک کا صدر یونانی ہوگا اور نائب صدر ترک۔ دونوں کا انتخاب ملک کی یونانی اور ترک آبادیاں کریں گی اور دونوں ہی کے پاس ویٹو پاور بھی ہوگی۔ پھر کابینہ اور سرکاری عہدوں میں 30 فیصد حصہ ترکوں کو دیا جائے گا۔

لیکن دنیا بھر کے قوم پرستوں کی طرح قبرص کے یونانیوں کی بھی حرکتیں نرالی تھیں۔ ان کے عجیب و غریب اقدامات کی وجہ سے حالات بگڑتے چلے گئے، کشیدگی فسادات میں بدلی، سینکڑوں ترکوں کی جانیں گئیں اور ان کی جوابی اور دفاعی کارروائیوں میں یونانی بھی مارے گئے۔ یہاں تک کہ 1963ء میں ترکوں کو حاصل آئینی حقوق بھی چھین لیے گئے، مکمل طور پر غیر آئینی طریقے سے۔

‏1974ء میں یونان کی فوجی حکومت کی پشت پناہی کے ساتھ قبرص کے نیشنل گارڈز نے بغاوت کر دی اور قبرص کی حکومت کا ہی خاتمہ کر دیا۔ یہاں ترکی نے اقوامِ متحدہ سے لے کر نیٹو اور برطانیہ تک، سب کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ وہ قبرص کے معاملے کو دیکھیں لیکن جب کہیں سے شُنوائی نہیں ہوئی تو ترکی نے 20 جولائی 1974ء کو قبرص میں اپنی فوج اتار دی۔

ترک فوج میدان میں قدم رکھتے ہی آگے بڑھتی چلی گئی اور جب تک سیزفائر ہوا، تب تک ترک اچھا خاصا علاقہ حاصل کر چکے ہیں تقریباً 3,355 مربع کلومیٹرز کا علاقہ۔ متحدہ قبرص کا دارالحکومت نکوشیا بھی ترکوں کے ہاتھ آ گیا۔

اس کارروائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ قبرص عملاً دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور اسے جدا کرنے والی سرحد تھی "گرین لائن”۔ جنگ کے بعد لاکھوں افراد نے گرین لائن کے پار ہجرت کی۔

ترکی نے لمبے عرصے تک قبرص کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی لیکن یونان اور عالمی طاقتوں نے ہمیشہ ترکی سے غیر حقیقت پسندانہ مطالبات کیے۔ یہاں تک کہ 15 نومبر 1983ء کو شمالی قبرص نے آزادی کا اعلان کر دیا اور نام رکھا ترک جمہوریہ شمالی قبرص۔ پاکستان اور بنگلہ دیش نے اسے ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم بھی کر لیا لیکن اقوامِ متحدہ اور امریکا کے دباؤ کی وجہ سے انہیں بھی قدم واپس لینا پڑے۔ یوں تقریباً 40 سال بعد بھی شمالی قبرص کو صرف ایک ملک ہی تسلیم کرتا ہے، یعنی ترکی۔

آزادی تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے شمالی قبرص ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔ جو صلاحیتیں ہیں، جو وسائل موجود ہیں، ان کے مطابق آگے نہیں بڑھ پا رہا کیونکہ اسے عالمی تجارت کے لیے اپنی بندرگاہیں تک استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ اِس کے باوجود آج شمالی قبرص کی کُل مقامی پیداوار یعنی جی ڈی پی 4.23 ارب ڈالرز ہے اور فی کَس آمدنی تقریباً 15 ہزار ڈالرز ہے، یعنی پاکستان سے تقریباً تین گنا زیادہ۔

ویسے دنیا کے دستور بھی نرالے ہیں، شمالی قبرص پر پابندیاں ہیں، باوجود اس کے کہ ہمیشہ آئین اور قانون کا ساتھ دیا، لیکن ہر قانون توڑنے کے باوجود جنوبی قبرص پر عنایات ہیں۔ اُن کے دعووں کو دنیا تسلیم کرتی ہے اور تمام تر ہٹ دھرمی کے باوجود اُن کی بات مانی جاتی ہے۔ 2004ء میں اقوامِ متحدہ نے قبرص میں ایک ریفرنڈم کروایا تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کر لیا جائے۔ شمالی قبرص نے حمایت کی اور یونانیوں نے ہمیشہ کی طرح مخالفت کی، وہ تو اقوامِ متحدہ کی بھی نہیں سُنتے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلنا چاہیے تھا؟ کوئی مسلم ملک ہوتا تو اس پر سخت پابندیاں لگا دی جاتیں، لیکن یہ اپنے لاڈلے ہیں۔ اُسی سال یعنی 2004ء میں قبرص کو یورپی یونین کا رکن بنا دیا گیا۔ یعنی بڑا اچھا کام کیا، اس لیے انعام تو ملنا چاہیے تھا۔ ویسے یہی یورپی یونین ہے جس کے پاس ترکی کے یورپی یونین میں شامل ہونے کی درخواست 1987ء سے کباڑ خانے میں پڑی ہے۔

خیر، کوئی مانے یا نہ مانے، حقیقت یہ ہے کہ قبرص کا جزیرہ آج بھی دو حصوں میں تقسیم ہے، آپ اسے یونانی اور ترک تقسیم کہیں، مسیحی اور مسلم تقسیم کہیں یا کچھ بھی، لیکن یہ موجود ہے اور اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔

پچھلے چند سالوں میں قبرص کا معاملہ مزید بگڑا ہے۔ یونان نے قبرص کے ساحل کے ساتھ اُن علاقوں میں تیل اور گیس تلاش کرنے کا کام شروع کر دیا تھا جو شمالی قبرص کا حصہ ہیں۔ اس قدم پر ترکی نے احتجاج کیا لیکن اِس کا نتیجہ ہمیشہ کی طرح وہی نکلا، یونان کی بدمعاشی کے سامنے کوئی کچھ نہیں بولتا۔ لیکن ترکی بھی جانتا ہے کہ جب گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی کو ٹیڑھا کیسے کِیا جاتا ہے۔ اس نے اپنی طاقتور بحریہ کی نگرانی میں تیل اور گیس تلاش کرنے والے کئی بحری جہاز علاقے میں بھیج دیے ہیں اور اب یونان کی ہمت نہیں کہ وہ شمالی قبرص کے ساحلی علاقوں کا بھی رخ کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ورلڈ کپ، جو چوری ہو گیا اور آج تک نہیں ملا

ایسا ملک جو غیر مسلم کو شہریت نہیں دیتا