میں

دنیا کے سرد ترین شہر میں زندگی کیسی گزرتی ہے؟

پاکستان کے طول و عرض میں آجکل سخت سرد موسم ہے۔ وادئ کوئٹہ سے لے کر پنجاب کے میدانوں اور سندھ کے صحراؤں سے لے کر ہمالہ کے برف زاروں تک، سردی کی لہر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ اپنے گھر پر بیٹھے ہوئے ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس سے زیادہ ٹھنڈ نہیں پڑ سکتی۔

لیکن ٹھیریے جناب، کیا آپ کو معلوم بھی ہے کہ دنیا کا سب سے ٹھنڈا شہر کون سا ہے؟ یہ 3 لاکھ سے زیادہ آبادی رکھنے والا ایک بھرا پُرا شہر ہے، جس کا ریکارڈ کم از کم درجہ حرارت منفی 64.4 درجہ سینٹی گریڈ ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں کسی بھی شہر کا سب سے کم درجہ حرارت منفی 24 درجہ سینٹی گریڈ ہے جو جنوری 1995ء میں اسکردو میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ یعنی یہ ہمارے سرد ترین شہر سے بھی ڈھائی تین گُنا زیادہ ٹھنڈا ہے۔ یہ ہے دنیا کا سب سے ٹھنڈا شہر، یاکوتسک۔

مشہورِ زمانہ سائبیریا کا یہ شہر آرکٹک سرکل یعنی قطبی دائرے سے صرف 280 میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ دنیا کا واحد شہر ہے جو مکمل طور پر پرمافروسٹ پر واقع ہے۔ پرمافروسٹ اس میدان کو کہتے ہیں جو برف پر واقع ہو اور مستقل جما رہے۔

اس شہر کا اوسط سالانہ درجہ حرارت ہی منفی 7 ڈگری سینٹی گریڈ ہے یعنی یہ اوسط درجہ حرارت کے لحاظ سے بھی دنیا کا سب سے ٹھنڈا شہر ہے۔ جنوری کے مہینے میں یہاں کا اوسط درجہ حرارت منفی 38.6 درجہ سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ یوں اوسط ماہانہ درجہ حرارت کے لحاظ سے بھی دنیا کا کوئی شہر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

یہاں کی سردیاں بہت طویل ہوتی ہیں۔ 10 نومبر سے 14 مارچ کے دوران ایک بھی موقع ایسا نہیں آتا کہ درجہ حرارت نقطہ انجماد یعنی صفر ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر جاتا ہو۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں جون اور جولائی کے مہینے میں گرمیاں بھی آتی ہیں اور تقریباً دو ہفتہ تو مقامی افراد کے مطابق خاصی "گرمی” ہوتی ہے۔ اس شہر میں جولائی کے مہینے کا اوسط درجہ حرارت 19.5 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ کبھی کبھی تو گرمی "بہت” بڑھ جاتی ہے اور پارا 30 ڈگری سینٹی گریڈ بھی پار کر جاتا ہے۔

یاکوتسک کا ایک بس اسٹاپ

یاکوتسک میں سب سے کم درجہ حرارت 5 فروری 1891ء کو ریکارڈ کیا گیا جو منفی 64.4 ڈگری سینٹی گریڈ تھا اور سب سے زیادہ درجہ حرارت 11 جولائی 2011ء کو رہا جو 38.4 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ سردیوں اور گرمیوں کے درجہ حرارت میں اتنا فرق بھی اس شہر کو انوکھا اور منفرد بناتا ہے۔

یہ شہر دنیا کے بڑے دریاؤں میں سے ایک دریائے لینا کے کنارے 1632ء میں قائم ہوا تھا۔ اصل میں یہ ایک کھلی جیل تھا۔ سوویت دور میں لوگوں کو بطور سزا یہاں بھیجا جاتا تھا اور ان سے جبری مشقت لی جاتی تھی۔

ویسے تو آج یاکوتسک میں 3 لاکھ سے زیادہ لوگ رہتے ہیں، لیکن یہاں رہنا اتنا آسان نہیں ہے۔ مخصوص عادتیں، اطوار، طور طریقے اور خوراک اپنا کر ہی یہاں کوئی رہ سکتا ہے۔ مثلاً اگر آپ چشمہ پہنتے ہیں تو یہاں دھاتی چشمہ نہیں پہن سکتے کیونکہ وہ جم جائے گا۔ اس کے علاوہ یہاں گھروں کو زمین پر نہیں بنایا جاتا کیونکہ نیچے پرمافروسٹ ہے جس سے گھر بہت ٹھنڈا رہے گا۔ اس لیے گھروں کو کنکریٹ کے پِلرز پر کھڑا کیا جاتا ہے۔

یاکوتسک شہر کا رات کے وقت ایک طائرانہ منظر

یہاں گاڑی چلانا بھی دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ کیونکہ یہاں سردیاں بہت لمبے عرصے تک رہتی ہیں اس لیے زیادہ تر گاڑی چلانے کے لیے موسم سازگار نہیں ہوتا۔ لوگ گاڑیوں کو خصوصی گیراج میں رکھتے ہیں جہاں گرمی کا انتظام ہوتا ہے اور گھر سے باہر نکلنے کے بعد گاڑی کو بند نہیں کرتے کیونکہ اگر ایک مرتبہ گاڑی بند ہوئی تو ہو سکتا ہے دوبارہ اسٹارٹ ہی نہ ہو۔

ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس سرد جہنم میں لوگ رہتے کیوں ہیں؟ تو جناب یہ علاقہ مائننگ یعنی کان کنی کے لیے مشہور ہے اور وہ بھی کس کی؟ ہیرے، سونا، چاندی اور کوئلے کی۔ شہر کی بنیادی صنعت یہی ہے لیکن کچھ عرصے سے سیاحت بھی خوب مقبول ہو رہی ہے۔ لوگ دنیا کے مختلف علاقوں سے اس شہر کی ٹھنڈک کے "مزے” لینے کے لیے آ رہے ہیں۔

یہ سیاح ماسکو کے علاوہ سیول اور بیجنگ سے آنے والی پروازوں سے بھی آتے ہیں اور ساتھ ہی ریلوے لائن کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہاں آنے والے سیاحوں کو دریا کے پار واقع ریلوے اسٹیشن پر اتارا جاتا ہے اور وہاں سے فیری سروس کے ذریعے شہر پہنچایا جاتا ہے۔ یہ سروس گرمیوں میں تو با آسانی چلتی ہے کیونکہ دریا بہتی ہوئی حالت میں ہوتا ہے لیکن جب سردیاں عروج پر آ جائیں اور دریا مکمل طور پر جم جائے تو اس پر گاڑیاں بھی چلتی ہیں۔ خطرہ تب ہوتا ہے جب ابھی سردیاں مکمل طور پر نہ آئی ہوں۔ نہ دریا مکمل طور پر جما ہوا ہو اور نہ بہتی ہوئی حالت میں۔ تب اس میں ہوور کرافٹ چلتے ہیں جو شہر کے دونوں حصوں کو آپس میں جوڑتے ہیں۔

دریائے لینا پر چلنے والے ہوور کرافٹ

آپ بالکل ٹھیک سمجھے ہیں، دریائے لینا پر کوئی پُل نہیں بنا ہوا۔ بہت عرصے سے یہاں ایک پل قائم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں لیکن ابھی تک تعمیر ہو نہیں پایا۔ ہو سکتا ہے جب تک آپ گھومنے کے لیے یاکوتسک جائیں، تب تک یہ پل بھی تعمیر ہو جائے؟ 😀

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

کیا جہاز میں پیدا ہونے والا بچہ ساری عمر مفت فضائی سفر کرتا ہے؟

آسکر ایوارڈز جیتنے والی تاریخ کی چند بہترین فلمیں