میں

دنیا کا امیر ترین ملک، غریب ترین کیسے بنا؟

یہ دنیا بہت بڑی ہے، اتنی بڑی کہ بہت سی چیزیں چھوٹی رہ گئی ہیں۔ انہی "چھوٹی چیزوں” میں کچھ ملک بھی ہیں جو بہت چھوٹے ہیں۔ ایک طرف ویٹیکن سٹی ہے جس کا رقبہ صرف اور صرف 0.49 مربع کلومیٹر ہے۔ پھر یورپ ہی میں موناکو آتا ہے جو 2.02 کلومیٹرز کا رقبہ رکھتا ہے۔ اس کے بعد نام آتا ہے اس کا جو سب سے چھوٹی island nation ہے۔ بحر الکاہل جیسے عظیم سمندر میں واقع چھوٹا سا "ناؤرو” (Nauru)۔ صرف 21 مربع کلومیٹرز پر پھیلا ناؤرو کبھی دنیا کا امیر ترین ملک تھا، لیکن آج یہ غریب ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ کیوں؟ یہی ہمارا آج کا موضوع ہے۔ آئیے بڑھتے ہیں اس عجیب و غریب داستان کی طرف۔

یہ بات تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ کسی بھی ملک کے لیے اس کے قدرتی وسائل بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ناؤرو کی کہانی کا آغاز بھی اس کے انہی نیچرل ریسورسز سے ہی ہوتا ہے۔ جب یہ جزیرہ برطانیہ کے قبضے میں تھا تو 20 ویں صدی میں یہاں سے پہلی بہت اعلیٰ قسم کا فاسفیٹ نکلا تھا۔ فاسفیٹ کھاد بنانے میں استعمال ہوتا ہے اور اُس زمانے میں جب دنیا کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی تھی، تو اس کی بڑھتی ہوئی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کھاد کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ تب دنیا کا 80 فیصد فاسفیٹ نکلتا تھا ناؤرو سے۔

اندازہ لگا لیں کہ ناؤرو کے ہاتھ کتنا بڑا خزانہ لگا تھا۔ لیکن فائدہ ناؤرو کے لوگ نہیں اٹھا سکے کیونکہ وہ غلام تھے۔ ایک زمانے میں اس پر جرمنی کا قبضہ تھا جس نے یہاں سے 80 ملین میٹرک ٹن فاسفیٹ نکالا۔ ناؤرو کا دوسرا نام ہی فاسفیٹ پڑ گیا۔ بندرگاہوں پر یہی کام، پروسیسنگ facilities بھی اسی کی، supporting انڈسٹریز بھی یہی کام کرتیں اور یہ سب کچھ اس ننھے سے جزیرے پر ہوتا جس کا رقبہ کراچی کے جزیرے منوڑہ جتنا ہے۔

بحر الکاہل کا جزیرہ ناؤرو

پھر آ گئی پہلی جنگِ عظیم۔ جرمنی جنگ میں لگا تو آسٹریلیا نے موقع کا فائدہ اٹھا کر ناؤرو پر قبضہ کر لیا۔ جزیرہ کیا؟ بس یہ تو ایک آف شور mining سائٹ تھی، جہاں سے یہ "تہذیب یافتہ” لوگ وسائل کی لوٹ مار کرتے تھے۔ فاسفیٹ جیسی چیز بہت ہی معمولی قیمت پر خریدی جاتی اور آسٹریلیا، نیوزی لینڈ برطانیہ کو کسانوں کو کوڑیوں کے بھاؤ دیا جاتا۔

ناؤرو کی تباہی میں جو کسر رہ گئی تھی، وہ دوسری جنگِ عظیم میں پوری ہو گئی جب جاپان نے اس جزیرے پر قبضہ کیا۔ یہاں صرف 600 لوگ زندہ بچے اور جنگ کے بعد ایک مرتبہ پھر آسٹریلیا کا قبضہ ہو گیا۔ وسائل کی لوٹ مار دوبارہ وہیں سے شروع ہوئی، جہاں رکی تھی۔ 1945 سے 1968 تک یہ اپنے عروج پر پہنچ گئی، یہاں تک کہ ناؤرو آزاد ہو گیا۔

آزادی کے بعد

آزادی مل گئی، اب کوئی لوٹ مار کرنے والا نہیں تھا، لیکن تب ناؤرو کی معیشت کا تمام تر انحصار صرف اور صرف فاسفیٹ کی مائننگ پر تھا۔ ایک خوبصورت جزیرہ اب ایک بھیانک نظارہ پیش کر رہا تھا۔ آبادی کم، پوری دنیا سے کٹا ہوا، دُور دراز اور دیگر وسائل بھی محدود، ناؤرو کے بعد دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس لیے وہی کام شروع کر دیا جو لوٹ مار کرنے والے کر گئے تھے یعنی فاسفیٹ کی مائننگ۔ یعنی سونے کی مرغی کے تمام انڈے ایک ہی مرتبہ نکالنے کی کوشش شروع ہو گئی۔

خیر، اب ناؤرو اپنے تمام وسائل کا مالک خود تھا، اس لیے فاسفیٹ جیسی دولت کا خوب فائدہ اٹھایا اور کچھ ہی عرصے میں دنیا کا امیر ترین ملک بن گیا۔ 1981 میں ناؤرو کی فی کس پیداوار یعنی GDP per capita تقریباً 27 ہزار ڈالرز تک پہنچ گئی، یعنی آج کے لحاظ سے دیکھیں تو 88 ہزار ڈالرز۔ پاکستانی روپوں میں سوا دو کروڑ روپے فی کس اور تقریباً 19 لاکھ روپے ماہانہ۔ لیکن۔۔۔

خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے

امارت کے ساتھ سارے چونچلے بھی آ گئے۔ بے ہنگم کھانا پینا، عیاشی اور اس کا نتیجہ موٹاپا، جو ایک وبا کی طرح ناؤرو میں پھیل گیا۔ 80 کی دہائی سے موٹاپے کی شرح اس تیزی سے بڑھی کہ جلد ہی ناؤرو دنیا کا سب سے بڑا موٹاپے کا شکار ملک بن گیا۔ جزیرے پر اور کوئی کام تو ہوتا نہیں تھا سوائے مائننگ کے، خوراک اور پانی زیادہ تر باہر سے آتے تھے لیکن فاسفیٹ بھی کم ہوتا جا رہا تھا۔ یعنی خطرے کی گھنٹی بج چکی تھی۔

تب ملک نے کچھ نئی انڈسٹریز کی طرح قدم بڑھایا، مثلاً آف شور بینکنگ۔ 90 کی دہائی میں تقریباً 400 فارن بینک لائسنس جاری کیے گئے۔ شروع میں تو بڑی کامیابی ملی لیکن ملک منی لانڈرنگ کا اڈہ اور ٹیکس سے بچنے والوں کی جنت بن گیا۔ پیسے تو ملے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں بلکہ خود مسئلہ بن گیا۔ 2005 میں ناؤرو نے آف شور بینکنگ کے بجائے باقاعدہ بینک لائسنس حاصل کرنے اور بینکوں کی physical presence کی شروعات کی۔ اور یہ ضمیر جاگنے کی وجہ سے نہیں بلکہ انٹرنیشنل پریشر کی وجہ سے کیا گیا۔ کیونکہ 2001 اپنے پیٹریاٹ ایکٹ میں ناؤرو کو rogue state قرار دے چکا تھا۔

نئی صدی اور ایک بھیانک دور کا آغاز

نئی صدی شروع ہونے کی پوری دنیا میں تو خوشی منائی گئی، لیکن ناؤرو کے لیے یہ ایک بھیانک دور کی شروعات تھی۔ 2001 میں بہت کچھ ہوا۔ ایک تو فاسفیٹ کے ذخائر ختم ہو گئے۔ ملک کے وسائل تیزی سے گھٹنے لگے یہاں تک کہ مرکزی بینک تک دیوالیہ ہو گیا۔ ایسا ہوا تو جو بھی ملک کے بیرونِ ملک اثاثے تھے وہ ضبط ہو گئے بلکہ قومی ایئر لائن کے جہاز تک روک لیے گئے۔ جی ڈی پی کم ہوتے ہوتے صرف 32 ملین ڈالرز رہ گئی اور بے روزگاری کی شرح 90 فیصد تک جا پہنچی۔ وہ جو صرف چند سال پہلے دنیا کا امیر ترین ملک تھا، اب بدحال اور امداد کا محتاج تھا۔

ایک نئی پیشرفت

‏2001 میں ہی ایک اور پیشرفت ہوئی۔ ناروے کا ایک جہاز جو آسٹریلیا جا رہا تھا اسے سمندر میں ڈوبتے ہوئے افغان مہاجرین کی ایک کشتی ملی۔ وہ 400 مہاجرین کی جان بچا کر آ رہا تھا کہ آسٹریلیا نے اسے ملک میں داخل ہونے سے روک دیا۔ تب اس مسئلے کا حل نکالا گیا جسے Pacific Solution کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت جہاز کو ناؤرو بھیج دیا گیا جہاں آف شور detention کیمپس بنائے گئے کہ جو بھی آسٹریلیا میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی کوشش کرے گا، اسے ناؤرو بھیج دیا جائے گا۔

اس کے بدلے آسٹریلیا ناؤرو کو پیسے دینے لگا، جو ظاہر سی بات ہے اتنے زیادہ تو نہیں ہوتے تھے لیکن اس وقت جن حالات میں تھا وہ تو اسے بھی غیبی امداد سمجھا۔ اب روزگار کے نئے مواقع تو پیدا ہوئے لیکن عیاشیوں کا دور ختم ہو چکا تھا۔ آج ناؤرو ایسے ہی آسٹریلیا اور دوسرے ملکوں کی دی گئی امداد سے چل رہا ہے۔ جی ڈی پی صرف 133ملین ڈالرز ہے یعنی وہ دنیا کی تیسری سب سے چھوٹی معیشت ہے۔ ہاں! کیونکہ آبادی صرف 10 ہزار ہے، اس لیے یہ 12 ہزار ڈالرز فی کس بنتا ہے یعنی تقریباً عالمی اوسط کے برابر ہی ہے۔

لیکن 70 اور 80 کی دہائی میں دنیا کے امیر ترین ملک  کا مستقبل اب تاریک ہے۔ آپ اس کہانی میں قصوروار کس کو سمجھتے ہیں؟ ان نو آبادیاتی طاقتوں کو ناؤرو کے وسائل لوٹتی رہیں؟ خود ناؤرو کے رہنے والوں کو کہ جو خود کو سنبھال اور سدھار نہیں سکے یا پھر کسی اور کو؟ ہمیں ضرور بتائیے گا کیونکہ آپ کی رائے ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ایسا ملک جو غیر مسلم کو شہریت نہیں دیتا