میں

پاکستان اور بھارت میں گرمی کی شدید لہر کیوں؟

پاکستان اور بھارت کا ایک بہت بڑا حصہ اِس وقت تندُور بنا ہوا ہے۔ شاید معلوم تاریخ میں کبھی مارچ اور اپریل کے مہینے میں دونوں ملکوں میں اتنی گرمی نہیں پڑی ہوگی۔ اور اب تو مئی کا مہینہ آ گیا ہے، وہی مہینہ کہ جس کے لیے اسماعیل میرٹھی نے کہا تھا کہ

مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ

بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینا

اب عالم یہ ہے کہ پاکستان بلکہ دنیا کے گرم ترین شہروں میں سے ایک جیکب آباد میں درجہ حرارت 49 ڈگری سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ یہ پاکستان کا واحد شہر نہیں ہے جو ففٹی کرنے والا ہے۔ اس فہرست میں سبّی، نواب شاہ، ملتان، بہاولپور اور بہت سے شہر آتے ہیں۔ جہاں دن تو دن رات میں بھی ٹمپریچر 35 ڈگری سے نیچے نہیں آ رہا۔ اور ابھی تو آغاز ہے جناب! گرمی تو ابھی اور بڑھے گی۔

پاکستان اور بھارت جیسے ملکوں میں ہیٹ ویو یعنی گرمی لہر آئے تو اس کے اثرات بہت بھیانک ہوتے ہیں۔ بجلی کی طلب ایک دم بڑھ جاتی ہے اور دونوں ملکوں میں بجلی کا فراہمی کا جو نظام ہے، الامان الحفیظ۔ آج بھی بھارت میں تقریباً دو تہائی گھرانے ایسے ہیں جو بجلی کی بندش سے متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تو پچھلے کئی ہفتوں سے بجلی لوگوں کو دن میں تارے دکھا رہی ہے۔ کئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں 12، 12 گھنٹے بجلی بند ہے۔

ایک ایسے وقت میں، جب سخت ترین گرمی میں بجلی کی سخت ضرورت ہو، اس کا یوں غائب ہو جانا کروڑوں لوگوں کو بُری طرح متاثر کر رہا ہے اور ہیٹ ویو کی شدت کو اور بڑھا رہا ہے۔

ہیٹ ویو ہوتی کیا ہے؟

سادہ الفاظ میں کہیں تو گرمی کا مسلسل کئی دنوں تک جاری رہنا۔ جس میں ہوا کا دباؤ، اس میں نمی کا تناسب اور دھوپ کی شدت مل کر ایسا فارمولا بناتے ہیں کہ معمول سے کہیں زیادہ گرمی پڑتی ہے۔ اس میں عموماً ہوا کا ایک زیادہ دباؤ قائم ہوتا ہے اور کئی دن تک رہتا ہے۔ اس کی شدت کی وجہ سے علاقے سے تمام بادل ختم ہو جاتے ہیں۔ یوں سورج کی روشنی براہِ راست اس علاقے پر پڑتی ہے۔ یوں زمین پکتی رہتی ہے اور نمی اور دیگر عناصر اس کی شدت کو مزید بڑھاتے رہتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت میں 2015ء میں گرمی کی ایک شدید لہر آئی تھی۔ تب ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ تھا، جس نے زبردست تباہی پھیلائی۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگ مارے گئے۔

اگر ہیٹ ویو کے دوران نمی کا تناسب بڑھ جائے تو سمجھیں یہ موت کا پروانہ ہے۔ اس سال موسم ذرا خشک ہے، یہی وجہ ہے کہ اس ہیٹ ویو سے اب تک اتنا جانی نقصان نہیں ہوا۔

یہ سب اچانک کیسے؟

یہ سب اچانک نہیں ہوا، ماہرین کئی سالوں سے خبردار کر رہے تھے کہ موسمیاتی تبدیلی سے زمین کے درجہ حرارت میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ اور اب ہم اس کے اثرات اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ رہے ہیں۔

کچھ دن پہلے پاکستان کی وادئ ہنزہ میں گلیشیئر پگھلنے سے سیلاب کی کیفیت پیدا ہوئی۔ جس کی زد میں آ کر شاہراہِ قراقرم کا ایک اہم پُل بھی ٹوٹ گیا۔ یہ گلیشیئر درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے ہی پگھل رہے ہیں۔ اور زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ ایسا گرمیوں کے بالکل آغاز پر ہی ہو گیا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے لیے گرمی کوئی نئی چیز نہیں۔ یہ خطہ پرانے زمانے سے ہی گرم علاقہ شمار ہوتا ہے لیکن اتنی گرمی؟ وہ بھی موسمِ گرما کے شروع ہوتے ہی؟ ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اس بار گرمی نے ایک دم شدت پکڑی ہے اور اس کا پھیلاؤ بھی کہیں زیادہ ہے۔

موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتی ہوئی گرمی کی وجہ سے اب دنیا کے کئی علاقے رہنے کے قابل نہیں۔ جنوبی ایشیا کا بہت بڑا حصہ ایسا ہے جہاں بغیر ایئر کنڈیشنر کے گرمیاں گزارنا مشکل ہونے والا ہے۔ لیکن اے سی ہو یا پنکھے، انہیں چلانے کے لیے بجلی چاہیے جناب۔ اور پاکستان اور بھارت دونوں بجلی بناتے ہیں کوئلے، تیل اور قدرتی گیس جیسے روایتی ایندھنوں سے۔ بھارت تقریباً 75 فیصد اور پاکستان لگ بھگ 60 فیصد بجلی اِن طریقوں سے بناتا ہے۔ اِن سے خطرناک گرین ہاؤس گیسیں نکلتی ہیں اور یوں گرمی مزید بڑھتی ہے۔ یعنی یہ ایک گھن چکر ہے، جس سے نکلنا آسان نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسئلے کے فوری حل یا اس کی شدت گھٹانے کی کوشش کرنے سے دوسرا بڑا مسئلہ سامنے آ جاتا ہے۔

ضرورت تو یہی ہے کہ بجلی بنانے کے لیے صاف اور ماحول دوست طریقے اختیار کیے جائیں، لیکن ان مشکل حالات میں آخر سرمایہ کہاں سے آئے گا؟ اور نتائج آنے تک انتظار کیسے کریں؟ یہ سیاسی قیادت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

ہیٹ ویو کے چیلنجز

پاکستان اور بھارت میں عوام کی اکثریت زراعت سے وابستہ ہے۔ بھارت میں تقریباً 60 فیصد اور پاکستان میں 40 فیصد افرادی قوت کھیتی باڑی کرتی ہے اور یہ وہ کام کے لیے جس کے لیے گھر سے باہر نکلنا ضروری ہے۔

دونوں ملکوں میں اِس وقت گندم کی کٹائی کا موسم ہے اور کروڑوں لوگ موسم کے رحم و کرم پر ہیں۔

اس کے علاوہ شہر بھی گرمی کی زد میں ہیں۔ ممبئی، دلّی، کراچی اور لاہور جیسے شہر ارد گرد کے علاقوں کے مقابلے میں زیادہ گرم ہو جاتے ہیں کیونکہ گرمی اسفالٹ، کنکریٹ، شیشے اور فولاد میں زیادہ تیزی سے جذب ہوتی ہے۔

اس صورت حال میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے غریب طبقہ، چاہے وہ شہروں میں رہتا ہو یا دیہات میں۔ سر پر مناسب چھت نہیں، کولنگ کا کوئی نظام نہیں اور پھر پانی کی قلت۔ جن کے پاس پنکھے اور ایئر کنڈیشنر ہیں، انہیں بھی بجلی نہ ہونے کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے اور اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ بجلی بہت مہنگی ہے۔ جائیں تو جائیں کہاں؟

اب کیا کریں؟

بہتر اربن پلاننگ، بڑے پیمانے پر شجر کاری، پانی اور بجلی کی مناسب تقسیم، آلودگی پر کنٹرول اور موسم کی پیش گوئی کے لیے بہتر نظام، یہ سب ایسے کام ہیں جو فوری طور پر کرنا ضروری ہیں لیکن اس کے لیے سیاسی ارادے اور عزم کی ضرورت ہے۔

بجلی بنانے کے لیے ماحول دوست طریقے اختیار کرنا اس مسئلے سے نمٹنے میں بہت مدد دے گا۔ لیکن اس وقت جنوبی ایشیا کے ملکوں کی توجہ ماحول سے زیادہ معیشت پر ہے۔ اپریل میں پاکستان میں عمران خان حکومت کا خاتمہ ہوا اس وقت ایک عبوری حکومت موجود ہے۔ پھر مئی میں سری لنکا میں راج پکشا خاندان کا دور اپنے اختتام کو پہنچا یعنی وہاں بھی سیاسی و معاشی بحران عروج پر ہے۔ اس غیر یقینی صورت حال میں کلائمٹ چینج جیسے موضوع کو کون گھاس ڈالے گا؟

لیکن جہاں سیاسی حالات غیر یقینی ہیں، مالی پریشانیاں ہیں، وہیں ہیٹ ویو بھی صورت حال کو خراب کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ وقت سے پہلے شدید گرمی پڑنے سے زراعت بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ اس سال پاکستان میں گندم کی پیداوار میں کم از کم 10 فیصد کمی آئے گی۔ اس کے علاوہ آم کی پیداوار میں بھی بہت کمی آنے کا خدشہ ہے۔ اس لیے حکومتیں مانیں یا نہ مانیں، لیکن موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا معیشت کی بہتری کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ اس لیے اس معاملے کو سنجیدہ لینا پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سری لنکا میں کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟

کامیابی کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹیں