میں

کامیابی کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹیں

دور جدید میں چاہے ترقی کی دوڑ میں بگٹٹ دوڑتی مغربی دنیا کا باشندہ ہو یا روایات کے امین مشرق کا باسی، صبح و شام کامیابی کے حصول کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ کچھ لوگ تو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان تھک محنت سے کامیابی حاصل بھی کر لیتے ہیں لیکن کثیر تعداد ایسی بھی ہے جو مساوی صلاحیتیں اور سخت مشقت کے باوجود مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں کر پاتی۔ ناکام افراد کی اکثریت قسمت کو ذمہ دار سمجھتی ہے اور یوں ہار مان لیتی ہے لیکن یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتی کہ ان کی ناکامی کے پیچھے دراصل کون سی وجوہات کارفرما تھیں؟

درحقیقت ہماری ناکامی کے پیچھے بنیادی کردار اُن عادتوں کا ہوتا ہے جنہیں ہم چھوٹی موٹی اور غیر اہم خیال کرتے ہیں۔ یہ عادات ہمارے لیے روز مرہ کاموں کو کل پر ٹالنے، مشکل کاموں سے دامن بچانے، خوف زدہ کرنے، ہار مان لینے اور حوصلہ گھٹانے کا کام کرتی ہیں۔ آئیے ایسی ہی چند عادتوں پر بات کرتے ہیں، جن سے چھٹکارا پا کر آپ بھی کامیابی کی ڈگر پر آگے نکل سکتے ہیں:

محنت سے جی چرانا

اپنے لیے ایسا کام تلاش کرنا بالکل مشکل نہیں کہ جس میں زیادہ محنت صرف نہ ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے سے آپ کو مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے؟ ماہرین اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ محنت طلب کاموں سے جتنا زیادہ دور جائیں گے، کامیابی کے امکانات اتنے ہی کم ہوتے جائیں گے۔ یاد رکھیں جس کام میں سخت محنت درکار نہ ہو، اسے ہر کوئی کرسکتا ہے اور جو کام ہر کوئی کر سکتا ہے، اسے کرنے والا بہت آگے نہیں جاتا۔ بلکہ اب تو بہت سی مشینیں ایسی آچکی ہیں کہ جو سخت مشقت والے کاموں کو بھی بغیر رکے کر سکتی ہیں۔ اس لیے چاہے تعلیم کا معاملہ ہو، کچھ نیا سیکھنے یا پھر اس پر عمل کرنے کا، کبھی بھی محنت سے جی نہ چرائیں۔


اندیشوں میں گھرے رہنا

دنیا میں ہر انسان کو کسی نہ کسی بات کا خوف لاحق ہے لیکن کامیاب لوگوں کی اکثریت اس کیفیت کو خود پر طاری نہیں کرتی بلکہ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نت نئے تجربات کرنے کی بات ہو یا پھر کاروبار میں جدت لانے کی، ہمیشہ وہی لوگ کامیاب نظر آتے ہیں جو نقصان کے اندیشے کو پچھاڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ بغیر سوچے سمجھے کسی بھی معاملے میں کود پریں لیکن بہتر مستقبل کی خاطر نت نئے خیالات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے غیر ضروری اندیشوں کا شکار ہوجانا کہ "کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے،” آپ کی کامیابی میں حائل ہوسکتا ہے۔


مال و دولت سے نفرت

کامیابی کا بہت زیادہ انحصار آپ کی سوچ پر ہے۔ اگر آپ کسی چیز کو برا خیال کرتے ہیں تو یقیناً اس کے حصول کی کوشش میں دل و دماغ ساتھ نہیں دے گا۔ اس لیے کوشش کریں کہ کامیابی کے حصول کی جدوجہد سے پہلے آپ کا ذہن تمام شکوک و شبہات سے پاک ہو۔ بالخصوص مال و دولت سے متعلق پھیلی غلط باتوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ جس کی طلب کو لالچ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ درحقیقت پیسے اور دولت کو ناپسندیدہ قرار دینے والے افراد کی اکثریت خود اسے حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے اور پھر مایوسی کا شکار ہو کر دوسروں کو بھی اپنی طرح ناکام بنانا چاہتی ہے۔ اس لیے ایسے افراد کی باتوں پر کان نہ دھریں اور اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے ہر ممکن اور جائز راستہ اختیار کریں۔


ہار مان لینا

زندگی میں آپ کو کئی طرح کے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے جن میں کبھی بہت زیادہ کامیابی ملتی ہے تو کبھی ناکامی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دائمی کامیابی اسی شخص کے حصے میں آتی ہے کہ جو اپنی ناکامیوں سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھے۔ اس کے بجائے اگر ناکامی کے سامنے ہار مانتے ہوئے گھٹنے ٹیک دیے جائیں تو پھر آنے والی زندگی میں کامیابی کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوجاتا ہے۔ جب کبھی آپ ناکام ہوتے ہیں تو آپ کو دو میں سے ایک راستے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے، پہلا یہ کہ ناکامی کا طوق گلے میں ڈال لیں یا پھر دوسرا یہ کہ سبق سیکھیں اور اپنے تجربے سے اسے کامیابی میں بدل دیں۔


سب کچھ جاننے کا زعم

کہتے ہیں کہ علم کی سب سے بڑی دشمن جہالت نہیں، بلکہ سب کچھ معلوم ہونے کی خوش فہمی ہے۔ بالکل درست کہتے ہیں۔ ہمارے یہاں ‘ماہر’ بننے کی بیماری ‘چھوت’ کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ جو شخص چار کتابیں پڑھ لیتا ہے، وہ "مجھے سب پتہ ہے” کا دعوے دار بن بیٹھتا ہے۔ اور یہی چیز آپ کو مزید جاننے اور سیکھنے سے روکتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ اپنی جگہ پر ہی رہتے ہیں اور دوسرے لوگ آگے بڑھ کر کامیابی کو گلے لگا لیتے ہیں۔ اس لیے اپنے اندر سے یہ خوش فہمی نکال دیجیے اور ہر وقت کچھ نیا سیکھتے رہنے کی عادت اپنائیے۔ یوں آپ زندگی میں بہت کچھ حاصل کرپائیں گے اور یہی آپ کی کامیابی کا مؤجب ثابت ہوگا۔


خود کو مورد الزام ٹھہرانا

جس طرح سب کچھ معلوم ہونے کا زعم خطرناک ہے، اسی طرح بلکہ، اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہر ناکامی کا ذمہ دار خود کو قرار دینا ہے۔ اچھے برے دن سبھی کی زندگی میں آتے ہیں اور آپ کو بھی سرد و گرم دونوں حالات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ آپ ہی برے حالات کے ذمہ دار ہوں بلکہ کئی مرتبہ دوسروں کی غلطیاں یا حالات کے باعث آپ کو کامیابی حاصل نہیں ہو پاتی۔ ایسے میں خود کو مجرم قرار دے کر سزا دینے سے بہتر ہے کہ اصل وجہ تلاش کریں اور اس کے سدباب کی کوشش کریں۔


دوست نما دشمن

صرف آپ کی عادات یا حالات ہی آپ کو کامیابی سے دور نہیں کرتے بلکہ احباب اور دوست کے روپ میں موجود قریبی افراد بھی آپ کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔ اچھے لوگوں سے اچھے تعلقات رکھنے میں کوئی برائی نہیں ہے مگر ایسے لوگوں سے فاصلہ ہی بھلا جو آپ کی حوصلہ شکنی کریں، آگے بڑھنے سے روکیں، طرح طرح کے خدشات سے خوفزدہ کریں یا پھر ماضی میں ہوئی غلطی کی مثال دیتے ہوئے اگلا قدم اٹھانے سے بعض رہنے کا مشورہ دیں۔ ایسے لوگوں سے جتنی جلدی ممکن ہو کنارہ کشی اختیار کریں ورنہ چند سالوں بعد آپ بھی ان ہی ناکام دوست نما دشمنوں کی طرح دوسروں سے اپنا بدلہ لے رہے ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

پاکستان اور بھارت میں گرمی کی شدید لہر کیوں؟

انوکھے جھنڈوں کی دلچسپ کہانیاں