میں

میر جعفر اور میر صادق کون تھے؟

ہندوستان کی تاریخ بہت طویل ہے۔ زمانہ قدیم سے آج تک ہند کے افق پر بہت سے کردار ابھرے۔ ایک طرف ٹیپو سلطان جیسے عظمت کے مینار ہیں تو دوسری جانب میر جعفر اور میر صادق ایسے بھی۔ جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا:

جعفر از بنگال، صادق از دکن

ننگِ ملت، ننگِ دِیں، ننگِ وطن

آج سیاست کے میدان میں کوئی خود کو ٹیپو سلطان کہے نہ کہے، لیکن اپنے مخالفین کو میر جعفر اور میر صادق ضرور کہتا ہے۔ آخر میر جعفر اور میر صادق نے ایسا کیا کِیا تھا کہ آج بھی ان کا نام ایک گالی کے مترادف ہے؟ آئیے تاریخ کے صفحات کھنگالتے ہیں اور جانتے ہیں ان دو کرداروں کے بارے میں، جن کا نام آج بھی نفرت کے قابل سمجھا جاتا ہے۔

شاید آپ جانتے ہوں کہ انگریزوں نے ہندوستان میں سب سے پہلے قدم بنگال کی سرزمین پر رکھے تھے۔ یہ پورے ہندوستان کا سب سے امیر علاقہ تھا، جہاں نواب سراج الدولہ کی حکومت تھی، جو علی وردی خان کی جگہ صرف 23 سال کی عمر میں تخت پر بیٹھے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انگریز اپنے کاروبار کی حفاظت کے نام پر چھاؤنیاں بنا رہے تھے۔ سراج الدولہ نے اس عمل کی مخالفت کی تو صورت حال کشیدہ ہو گئی اور معاملات یہاں تک پہنچ گئے کہ نواب اور انگریزوں میں براہِ راست ٹکراؤ ہو گیا۔ نواب سراج الدولہ نے کلکتہ پر قبضہ کر لیا، جسے چھڑانے کے لیے انگریزوں کو بہت پاپڑ بیلنا پڑے اور اس کے بعد انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب سراج الدولہ سے چھٹکارا حاصل کرنا پڑے گا۔ لیکن کیسے؟ اس کے لیے انہوں نے ہر وہ حربہ آزمایا اور بالآخر نواب کے سپہ سالار میر جعفر کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

میر جعفر رابرٹ کلائیو سے ملاقات کرتے ہوئے

انگریزوں نے میر جعفر سے وعدہ کیا کہ اگر وہ سراج الدولہ کو ہٹانے میں انگریزوں کی مدد کرے تو اسے بنگال کا حکمران بنا دیا جائے گا۔

تصادم ناگزیر تھا، جون 1757ء میں پلاسی کے میدان پر نواب سراج الدولہ کی 55 ہزار کی فوج کا سامنا انگریزوں کے تین ہزار سپاہیوں سے ہوا۔ عددی لحاظ سے تو دونوں کا کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا لیکن تب وہ فیصلہ کُن مرحلہ آیا، جس میں میر جعفر کی غداری نے اپنا کردار ادا کیا۔ 35 ہزار پیادہ اور 15 ہزار گھڑ سواروں پر مشتمل دستے منصوبے کے عین مطابق اور میر جعفر کی ہدایت پر جنگ سے منہ موڑ گئے اور باقی رہ گئے صرف 5 ہزار شہ سوار۔ سراج الدولہ کو بُری طرح شکست ہوئی، گرفتار بھی ہوئے اور پھر میر جعفر کے بیٹے کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے۔

وعدے کے مطابق میر جعفر کو بنگال کا حکمران تو بنایا گیا لیکن ایسے غدار پر کون اعتماد کرتا؟ انگریزوں نے امیدیں پوری نہ ہونے پر اُن سے بھی اقتدار چھین لیا اور بنگال ہندوستان کا وہ پہلا علاقہ بنا جو ڈائریکٹ کمپنی رُول میں آیا۔ ہندوستان کے زوال کا آغاز ہو چکا تھا، ایک غدار کے ہاتھوں۔

آج مرشد آباد کے اس محل کو نمک حرام ڈیوڑھی کہتے ہیں، جہاں کبھی میر جعفر رہتا تھا۔

نمک حرام ڈیوڑھی

جنگ پلاسی کے بعد انگریزوں کے بڑھتے قدموں کو روکنے والا کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ ایک کے بعد ایک شکست اور ہندوستان پر غلامی کی زنجیریں سخت ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ ٹھیک 100 سال بعد 1857ء میں ‘سونے کی چڑیا’ مکمل طور پر گوروں کی گرفت میں آ گئی۔

اس پورے دور میں جس ایک شخصیت نے قابض طاقتوں کا جم کر مقابلہ کیا، وہ ٹیپو سلطان تھے۔ وہ جنوبی ہند کی ریاست میسور کے حکمران تھے۔ جہاں وہ اپنے والد حیدر علی کی جگہ 1782ء میں حکمران بنے تھے۔ ریاست میسور نے انگریزوں کے خلاف چار جنگیں لڑیں، جن میں سے تین میں ٹیپو سلطان مقابل تھے۔ ایک جنگ میں انہوں نے زبردست کامیابی بھی حاصل کی اور انگریزوں کو معاہدے پر بھی مجبور کر دیا لیکن دوسری جنگ میں شکست کھائی اور آدھی ریاست انگریزوں اور دوسرے مخالفین کے ہاتھ چلی گئی۔ آخری جنگ فیصلہ کُن تھی، جس میں صرف انگریز ہی نہیں، مسلمان، ہندو، سبھی فتح علی خان ٹیپو کے خلاف متحد ہو گئے۔ ٹیپو نے مئی 1799ء میں سرنگاپٹنم کے محاصرے میں دشمن افواج سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔

ٹیپو سلطان کی اس شکست میں بنیادی کردار تھا اپنے ہی وزیر میر صادق کا۔ انگریز جانتے تھے کہ ہندوستان پر ان کے قبضے کا خواب پورا ہونے میں اگر کوئی رکاوٹ حائل ہے تو وہ ٹیپو ہے۔ انہیں شکست دینے کے لیے اس لیے وہی پرانا حربہ استعمال کیا گیا۔ جیسے سراج الدولہ کے خلاف میر جعفر کو لایا گیا، ویسے ہی ٹیپو کے اپنے ہی حلقے سے چند غداروں سے کام لیا گیا۔

انگریزں نے میر صادق کے مشورے اور ہدایات کے مطابق ہی مخصوص مقامات اور مخصوص اوقات پر حملے کیے اور میسور اور بنگلور پر قبضہ کیا۔ اسی کے فیصلوں کی وجہ سے انگریز دارالحکومت سرنگاپٹنم میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ اسی نے ٹیپو کے وفادار سالار غازی خان کو قتل بھی کیا تھا۔ آخر میں اس کے اقدامات اتنے واضح ہو چکے تھے کہ خود ٹیپو کے وفاداروں کو اندازہ ہو گیا اور انہوں نے میر صادق کو قتل کر دیا۔ لیکن تنہا میر صادق ہی نہیں، غداروں کی فہرست میں اور بھی کئی نام ہیں۔

ٹیپو کی شہادت سے صرف 100 سال پہلے 1700ء میں ہندوستان دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔ اورنگزیب عالمگیر کا دورِ حکومت اپنے عروج پر تھا۔ کابل سے کلکتہ اور کشمیر سے کالی کٹ تک، مغلوں کا راج تھا۔ لیکن صرف ایک صدی میں ہندوستان پر انگریز ایسے قابض ہوئے کہ انہیں روکنے والا کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ اور صدی مکمل ہونے تک مزاحمت کا آخری باب بھی ٹیپو سلطان کی صورت میں بند ہو گیا۔

وہ شخص تو شب خون میں مارا گیا ورنہ

اس جیسا بہادر کوئی لشکر میں نہیں تھا

ہندوستان کے غلام بن جانے میں جہاں نا اہل حکمرانوں کا ہاتھ تھا، وہیں کسی حد تک میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں کے اقدامات بھی شامل تھے۔ اس لیے جب تک ہندوستان کا ذکر باقی رہے گا، جب تک دنیا ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کو یاد کرتی رہے گی، میر جعفر اور میر صادق بھی زندہ رہیں گے، لیکن ایک غدار اور وطن فروش کی حیثیت سے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

[وڈیوز] تجارت کے لیے دنیا کے اہم بحری راستے – قسط 3

سری لنکا میں کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟