میں

تحریک عدم اعتماد: وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کا طریق کار کیا؟

پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں نے منگل کے روز وزیر اعظم عمران خان کی برطرفی کے لیے تحریک عدم اعتماد اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرا دی ہے۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے قومی اسمبلی کے کل ممبران کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ یعنی موجودہ 342 ممبران پر مشتمل قومی اسمبلی میں اپوزیشن کو 172 ارکان درکار ہوں گے۔

وزیر اعظم یا حکومت ہٹانے کے آئینی طریقے:

پاکستان کے آئین میں وزیر اعظم یا حکومت کو ہٹانے کے لیے تین طریقے درج ہیں جن کے ذریعے وزیر اعظم یا حکومت کو ہٹایا جا سکتا ہے۔

پہلا طریقہ یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 91 کے تحت وزیر اعظم صدر مملکت کو لکھ کر اپنا استعفے دے دے۔ وزیر اعظم کے استعفیٰ کی صورت میں کابینہ خود بخود تحلیل ہو جاتی ہے۔

وزیر اعظم یا حکومت کو ہٹانے کا دوسرا طریقہ تحریک عدم اعتماد ہے۔ آئین میں آرٹیکل 95 درج ہے۔ جس کے مطابق قومی اسمبلی کے اراکین کی کل تعداد کا 20 فیصد وزیر اعظم کے خلاف اپنے دستخطوں سے تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں جمع کرائیں گے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اسمبلی کے کل ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ یعنی موجودہ 342 رکنی اسمبلی میں 172 ارکان اگر اس تحریک کے حق میں ووٹ دیتے ہیں تو وزیر اعظم کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑے گا۔

موجودہ قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن

وزیر اعظم یا حکومت کو ہٹانے کا تیسرا طریقہ اسمبلیوں کی تحلیل ہے۔ اسمبلیاں ٹوٹنے کی صورت میں حکومت اور وزیر اعظم خود بخود فارغ ہو جائیں گے۔ لیکن آئین کے آرٹیکل 58 کے مطابق قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار بھی عملی طور پر وزیر اعظم ہی کے پاس ہے۔ اس سے پہلے یہ اختیار صدرِ مملکت کے پاس تھا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ اختیار ختم کر دیا گیا تھا۔

آرٹیکل 58 کے مطابق وزیر اعظم صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ دے سکتا ہے اور وزیر اعظم کے مشورے پر صدر اسمبلی تحلیل کرے گا۔ تاہم اگر صدر مملکت نے کسی وجہ سے وزیر اعظم کے مشورے پر اسمبلیاں تحلیل نہیں کیں تو 48 گھنٹوں کے بعد قومی اسمبلی خود بخود تحلیل ہو جائے گی، جس کے بعد حکومت ختم ہو جائے گی۔

آئین میں درج ان تین طریقوں کے علاوہ ایک اور صورت بھی ہے جس کے بعد وزیر اعظم برطرف اور اس کی کابینہ تحلیل ہو جاتی ہے۔ اگر کسی بھی وجہ سے وزیر اعظم قومی اسمبلی کے رکن نہیں رہتے تو اس صورت میں بھی وہ عہدے سے فارغ ہو جائیں گے۔ مثلاً اگر عدالت کسی وجہ سے وزیر اعظم کو سزا دے یا اسمبلی رکنیت کے لیے نااہل قرار دے تو بھی حکومت ختم ہو جاتی ہے۔ اس کی حالیہ مثالیں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی ہیں، جنہیں سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے نااہلی اور سزا کا سامنا کرنا پڑا۔

وزیر اعظم کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی تازہ ترین پوزیشن:

آئین کے آرٹیکل 95 ون کے تحت وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے قومی اسمبلی کے ممبران کے 20 فیصد یعنی 69 ارکان کے دستخط ضروری ہے۔ چونکہ اپوزیشن کی قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع تحریک عدم اعتماد پر 69 سے زائد اراکین کے دستخط ہیں، اس لیے اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی بنیادی شرط پوری کر دی ہے۔

چونکہ اس وقت قومی اسمبلی ”اِن سیشن“ نہیں ہے، اس لیے اپوزیشن نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کرا دی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 54 تھری کے تحت جب اسمبلی کے 20 فیصد سے زائد اراکین اس طرح اجلاس بلانے کی درخواست کریں تو اسپیکر پابند ہے کہ 14 دن کے اندر اجلاس طلب کرے۔

گویا اب اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو 14 دن کے اندر اجلاس طلب کرنا ہوگا۔

آئین کے مطابق اجلاس شروع ہونے کے بعد تحریک عدم اعتماد پر بحث کے بعد اس پر ووٹنگ ہوگی۔ آئین کے تحت تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ بحث شروع ہونے کے کم از کم تین دن بعد اور زیادہ سے زیادہ سات دنوں کے اندر کرانا لازمی ہے۔

اگر حکومت اس سلسلے میں تاخیری حربے استعمال کرتی ہے، اس کے باوجود یہ پورا زیادہ سے زیادہ 20 دنوں کے اندر تکمیل تک پہنچے گا۔ اگر صدرِ مملکت فوری اجلاس طلب کرتے ہیں تو اجلاس شروع ہونے کے اگلے سات دنوں میں وزیر اعظم کے مستقبل کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔

قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط برائے 2007ء کے سیکشن 37 کے تحت قرارداد پیش ہونے کے بعد سیکریٹری اسمبلی پابند ہوگا کہ جلد سے جلد ارکان اسمبلی کو نوٹس دے۔ قواعد کے مطابق تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد اسپیکر ووٹنگ سے قبل اجلاس برخاست نہیں کر سکتا۔

تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ:

آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اوپن ہوگی، یعنی خفیہ رائے شماری یا بیلٹ سے نہیں ہوگی۔ عدم اعتماد پر ووٹ اسمبلی میں تقسیم (ڈویژن) کے ذریعے ہوگی یعنی دونوں اطراف کے اراکین علیحدہ ہو جائیں گے اور پھر گنتی کرائی جائے گی۔

اگر اسمبلی کے کل ممبران کی اکثریت یعنی 172 تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دے دیں تو وزیر اعظم اپنے عہدے سے فارغ ہو جائیں گے۔ ایسی صورت میں اسپیکر قومی اسمبلی فوری طور پر صدر مملکت کو تحریری طور پر آگاہ کریں گے اور قومی اسمبلی کے سیکریٹری اعلان کو گزٹ میں شائع کریں گے۔

تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں اپوزیشن اسپیکر سے درخواست کرے گی کہ نئے وزیر اعظم کے لیے ووٹنگ کرائی جائے۔

ماضی میں ہونے والی تحاریک عدم اعتماد:

اگر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو ایک نئی تاریخ رقم ہو جائے گی اور وہ 1973ء کے آئین کے تحت پہلے وزیر اعظم بن جائیں گے جنہیں عدم اعتماد کے ذریعے برطرف کیا جائے گا۔

‏1989ء میں اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کی قیادت میں پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کافی کوششوں کے باوجود ناکام ہوئی تھی۔

اگست 2006ء میں اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد ناکامی سے دوچار ہوئی تھی۔

اپوزیشن کی طرف سے 136 اراکین نے اس تحریک کے حق میں ووٹ دیا تھا، جبکہ 201 حکومتی اراکین نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو ناکام قرار دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمٰن تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یورپ میں آیوڈین کی گولیوں کی دھڑا دھڑ فروخت، لیکن کیوں؟

وہ لڑکی جس نے دنیا کو بے وقوف بنایا