میں ,

اصلی "منی ہائسٹ”؟ داستان ماسکو گولڈ کی

یہ نہ "منی ہائسٹ” کی کہانی ہے اور نہ ہی کسی فلم یا ڈرامے کا ذکر جس میں بینک آف اسپین میں گھس کر کروڑوں ڈالرز مالیت کا سونا نکال لیا گیا ہو۔ اس میں کوئی "پروفیسر” بھی نہیں جو اپنے چَیلوں کے ساتھ مل کر ایک زیرِ زمین تجوری سے بھاری مقدار میں سونا نکال لے اور پھر اسے ایسا چھپائے کہ دنیا سوچتی رہ جائے کہ زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔

ہم جس سونے کی بات کر رہے ہیں وہ بالکل اصلی اور خالص سونا تھا، اسے دینے والے اور لینے والے بالکل اصل لوگ تھے جنہیں آپ، ہم اور تاریخ اچھی طرح جانتی ہے اور یہ سب کی نظروں کے سامنے ہوا۔ 510 ٹن خالص سونا ایسا غائب ہوا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔

اسپین کی تاریخ میں اس سونے کو "ماسکو گولڈ” کہتے ہیں۔ یہ بینک آف اسپین میں موجود سونے کے کُل ذخائر کا 72 فیصد تھا۔ لیکن یہ سونا ماسکو گیا کیسے؟ اور کیوں بھیجا گیا؟ اور اسپین یہ سونا واپس کیوں نہیں لیتا؟ آئیے ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈتے ہیں:

اسپین نے پہلی جنگِ عظیم میں کسی ملک کا ساتھ نہیں دیا تھا اور غیر جانب دار ہونے کی وجہ سے اس نے 20 سال تک خوب مال کمایا۔ اس کی معیشت دفاعی اور جنگی معاملات پر خرچ کرنے سے بچی رہی بلکہ الٹا اپنے کارخانوں میں تیار ہونے والا مال اتحادیوں بلکہ ان کے مخالفین کو بھی بیچتا رہا۔ اسپین حاصل ہونے والی تمام آمدنی سونے میں بدل کر اپنے پاس محفوظ کرتا رہا، یہاں تک کہ خود اسپین پر بھی ایک آفت نازل ہو گئی، یہ تھی سیاسی بحران کے بعد پیدا ہونے والی خانہ جنگی!

سوویت یونین کے سربراہ جوزف اسٹالن کا کہنا تھا کہ وہ اسپین کو باغیوں سے لڑنے کے لیے ٹینک اور وہ سب کچھ فراہم کرے گا جس کی اسے ضرورت ہے لیکن اسے چاہیے سونا، وہ بھی ایڈوانس میں۔

اصل میں جوزف اسٹالن کی نظریں اسپین کے سونے پر تھیں کیونکہ تب اسپین کے پاس بہت سونا ہوتا تھا۔ یہ اُس زمانے میں کسی ملک کے پاس موجود سونے کا چوتھا سب سے بڑا ذخیرہ تھا۔ تب سوویت یونین کا حال بہت ہی بُرا تھا۔ اسٹالن کا پنج سالہ منصوبہ بُری طرح ناکام ہو چکا تھا اور ملک کی ایک چوتھائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔ اس لیے سوویت یونین نے خود کو معاشی زوال سے نکالنے کے لیے اسپین کی مجبور حکومت پر ایسی شرائط رکھیں کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ماننے پر مجبور ہو گیا اور بالآخر اپنا سونا ماسکو بھیج دیا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ سوویت یونین جیسی ظالم حکومت اپنی موت آپ مر جاتی، اگر وہ اس طرح سونا حاصل کر کے اپنی حکومت نہ چلاتی رہتی۔ انقلاب کے فوراً بعد کمیونسٹ حکومت نے زار کے خزانے سے ملنے والا سونا استعمال کیا، پھر چرچ کا خاتمہ کر کے اُن کا مال ہتھیا لیا، پھر اسپین کا یہ سونا رحمت بن کر نازل ہوا اور پھر دوسری جنگِ عظیم میں کامیابی کے بعد جرمنی کا سونا آ گیا۔ یوں چلتے چلتے بالآخر 1991ء میں آ کر سوویت یونین کا خاتمہ ہو گیا۔ خس کم، جہاں پاک!

بینک آف اسپین کی مرکزی عمارت

خیر، ہم بات کر رہے تھے اسپین کی خانہ جنگی کی۔ یہ خانہ جنگی 1930ء کی دہائی کے وسط میں شروع ہوئی تھی۔ باغی فوجیوں نے ملک کے بہت بڑے رقبے پر قبضہ کر لیا تھا، یہاں تک کہ وہ دارالحکومت میڈرڈ کے قریب بھی پہنچ گئے تھے۔

تب اسپین کی حکومت نے یہ بہت بڑا اور مشکل قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس کو کسی دوسرے ملک سے امداد کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ پڑوسی ملک پرتگال، اٹلی اور جرمنی تو باغیوں کے ساتھ ملے ہوئے تھے، ان کی  پشت پناہی کر رہے تھے اور حکومت کے حامی صرف سوویت یونین اور کسی حد تک فرانس ہی تھے۔ فرانس دفاعی لحاظ سے اسپین کی مدد کرنے کے قابل نہیں تھا اس لیے کو مجبوراً سوویت یونین ہی کا رخ کرنا پڑا۔

اسپین نے یہ قدم اس لیے بھی اٹھایا تھا کہ کہیں اتنی بڑی دولت باغیوں کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ اُس وقت بینک آف اسپین کے پاس کُل 635 ٹن خالص سونا تھا۔ اس میں سے 510 ٹن سونا ماسکو بھیجا گیا، یعنی تقریباً تین چوتھائی۔

لیکن یہ قدم بھی اسپین کی حکومت کو بچا نہیں سکا۔ جلد ہی دارالحکومت میڈرڈ باغیوں کے ہاتھوں میں چلا گیا اور کچھ ہی عرصے میں دنیا نے جنرل فرانسسکو فرانکو کو اسپین کا حکمران بھی تسلیم کر لیا۔ جنہوں نے سوویت یونین سے مطالبہ بھی کر دیا کہ وہ سونا واپس کیا جائے جو ماسکو بھیجا گیا تھا۔

جنرل فرانکو

روس کا جواب تھا وہ تو سب خرچ ہو چکا۔ جتنا سونا بھی دیا گیا تھا، اس کے بدلے میں اسپین نے بہت کچھ سوویت یونین سے لیا ہے۔

اب اسپین کے بُرے دن شروع ہو چکے تھے، جو دوسری جنگِ عظیم کی وجہ سے اور بگڑ گئے۔ اسپین اس عالمی جنگ میں بھی غیر جانبدار رہا تھا اور یہاں کسی کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے عالمی تنہائی کا بھی شکار ہو گیا۔

لیکن آج کے مؤرخ کہتے ہیں کہ "ماسکو گولڈ” دراصل جنرل فرانکو کا پروپیگنڈا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ معیشت کی خرابی اور اسپین کی عالمی تنہائی کا ذمہ دار اُسے قرار دیا جائے، اس لیے اُس نے تمام تر حالات کی ذمہ داری پچھلی حکومت پر ڈال دی اور کہا کہ ملک کا سارا سونا پچھلی حکومت نے سوویت یونین کے حوالے کر دیا تھا، اس لیے ملک کے آج حالات اتنے خراب ہیں۔ کئی مؤرخین کہتے ہیں کہ حقیقت یہی ہے کہ سوویت یونین کو دیے گئے سونے کے بدلے میں حکومت نے بھرپور دفاعی اور جنگی امداد حاصل کی تھی یعنی حساب برابر کر دیا تھا۔

تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ماسکو گولڈ اصل میں اسپین کا کوہِ نور ہیرا ہے۔ آج بھارت اور پاکستان برطانیہ سے کوہِ نور کی واپسی کے مطالبے بھی ایسے ہی کرتے ہیں جیسے کبھی اسپین نے ماسکو سے سونے کی واپسی کا کیا تھا۔ جس طرح کوہِ نور کے بارے میں عجیب و غریب داستانیں ہمارے ہاں موجود ہیں، ویسی ہی اسپین میں ماسکو گولڈ کے بارے میں ہیں بلکہ اسپین میں اس اصطلاح کا ایک خاص مطلب ہے یعنی آپ کی دولت کسی دوسرے کے پاس ہو تو اسے محاورتاً ماسکو گولڈ کہتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

کیا نابینا افراد بھی خواب دیکھتے ہیں؟

آمروں کے من پسند کھانے