میں

آخر روس اور یوکرین کا جھگڑا کیا ہے؟

امریکا نے یوکرین میں موجود اپنے سفارت کاروں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو ملک سے نکال دیں کیونکہ خطرہ ہے کہ روس یوکرین پر چڑھائی کرنے والا ہے۔

اس وقت روس اور یوکرین کی سرحد پر صورت حال بہت کشیدہ ہے۔ مقبوضہ کریمیا اور روس کے قبضے میں موجود یوکرین کے مشرقی علاقوں میں صورت حال کسی بھی وقت بگڑ سکتی ہے۔ یہ باتیں عام ہیں کہ روس یوکرین کے خلاف ایک بڑی فوجی کار روائی پر غور کر رہا ہے۔

امریکا نہ صرف اپنے شہریوں کو یوکرین کا سفر کرنے سے روک رہا ہے بلکہ روس جانے میں بھی احتیاط کا حکم دے رہا ہے۔ اس حکم نامے میں یوکرین اور روس کے مابین کشیدگی کا صاف ذکر ہے۔

اس وقت یوکرین کی سرحد پر لاکھوں روسی فوجی موجود ہیں جن کے ساتھ ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، بھاری توپ خانہ اور میزائل بھی ہیں۔ روس تو اب بھی یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ پڑوسی ملک پر حملے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا لیکن اس کی نقل و حرکت دیکھ کر ایسا بالکل نہیں لگتا۔

لیکن یہ سوال ضرور آپ کے ذہن میں پیدا ہوا ہوگا کہ آخر دونوں ملکوں کے درمیان جھگڑا کس بات کا ہے؟ تو ہر عالمی تنازع کی طرح اس کی جڑیں بھی تاریخ میں ہیں۔

آج کا یوکرین ایک زمانے میں کئی سلطنتوں کے درمیان کشیدگی کا میدان بنا رہا ہے۔ روس، سلطنتِ عثمانیہ، پولینڈ اور دیگر سلطنتیں چھینا جھپٹی کرتی رہیں یہاں تک کہ یہ علاقہ مکمل طور پر سوویت یونین کا حصہ بن گیا۔ 1990ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یوکرین کو آزادی ملی اور اس کے بعد سے آج تک اس ملک نے کبھی سکھ کا سانس نہیں لیا۔

ملک کے مشرقی علاقوں اور اہم ترین جزیرہ نما کریمیا میں روسی باشندوں کی اکثریت ہے۔ یہ آج بھی روس کے حامی سمجھے جاتے ہیں اور مرکزی حکومت کے اقدامات سے نالاں رہتے ہیں۔

یوکرین کے مختلف علاقوں میں روسی زبان بولنے والوں کی آبادی کی شرح۔ کریمیا اور مشرقی علاقوں میں واضح اکثریت نظر آ رہی ہے

البتہ موجودہ کشیدگی کی جڑیں ماضئ قریب میں ہیں۔ 2014ء میں روس نے جزیرہ نما کریمیا پر قبضہ کر لیا تھا جو بحیرۂ اسود کے کنارے ایک بہت ہی اہم علاقہ سمجھا جاتا ہے۔

یہ علاقہ 1954ء تک روس کا حصہ تھا لیکن تب اسے یوکرین میں شامل کر دیا گیا تھا۔ روس کا دعویٰ ہے کہ کریمیا کے عوام روس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں جبکہ درحقیقت وہ یہاں موجود اپنے بحری اڈے کو بھی تحفظ دینا چاہتا ہے، جو دراصل یوکرین کی مغرب نواز حکومت نے ختم کر دیا تھا۔

یوکرین تو کہتا ہے کہ روس نے بلا اشتعال کار روائی کی اور کریمیا پر قبضہ کر لیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یوکرین کی حکومت نے کریمیا اور مشرقی یوکرین میں کچھ ایسےاقدامات اٹھائے تھے، جن سے ان علاقوں میں اشتعال پیدا ہوا اور روسی مفادات کو بھی ٹھیس پہنچی۔ نتیجہ روس کی کھلی جارحیت کی صورت میں نکلا اور آج عالم یہ ہے کہ یوکرین کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔

ویسے عالمی برادری روس کے کریمیا قبضے کو تسلیم نہیں کرتی بلکہ اس ‘ایڈونچر’ کا نتیجہ روس کو کئی پابندیوں کی صورت میں بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کریمیا اب مکمل طور پر روس کی عملداری میں ہے۔

پھر یوکرین کی سرکاری افواج اور ملک کے مشرقی علاقوں میں موجود روس نواز علیحدگی پسندوں کی لڑائیاں بھی جاری ہے جن میں 2014ء سے اب تک 13 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔

اب مشرقی یوکرین میں روس کی فوجی موجودگی کے واضح شواہد ہیں لیکن روس تردید کر رہا ہے بلکہ الٹا یوکرین پر الزام لگاتا ہے کہ وہ ان علاقوں میں جنگی جرائم کر رہا ہے اور شہری علاقوں کو بمباری کا نشانہ بنا رہا ہے۔

یوکرین میں مشرقی اور مغربی علاقوں کے درمیان خلیج گزشتہ دو دہائیوں میں بہت بڑھ گئی ہے۔ مرکزی حکومت کے کچھ اقدامات ایسے تھے کہ جن سے اس میں مزید اضافہ ہوا اور معاملہ اب علیحدگی کی ایک کھلی تحریک تک آ پہنچا ہے۔ ابتدا ہی سے ملک کے یہ دونوں علاقے بالکل الگ خطوط پر چل رہے تھے۔ مغربی علاقوں میں جیتنے والوں کا مشرقی حصوں میں جیتنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اور مشرقی علاقوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کے مغربی حصے میں جیتنے کے امکانات صفر تھے۔ کریمیا اور مشرقی یوکرین میں ہمیشہ روس نواز ہی جیتتے ہیں اور روس کے بقول یہ حصے اب روس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔

ویسے کریمیا پر لڑائی کوئی نئی بات نہیں۔ 1850ء کی دہائی میں یہ علاقہ ایک بہت بڑی جنگ کا میدان بھی رہا ہے۔ تب روس کے توسیع پسندانہ عزائم کو دیکھتے ہوئے فرانس، برطانیہ اور سلطنتِ عثمانیہ نے مل کر روس کا مقابلہ کیا تھا اور روس کو ہرایا تھا۔ لیکن یہ کامیابی بھی سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کو روک نہیں پائی۔ ویسے اس جنگ کے بعد مشرقی یورپ میں جو حالات پیدا ہوئے، وہ بالآخر پہلی عالمی جنگ کا سبب بنے۔

جنگِ کریمیا، جس میں برطانیہ، فرانس اور سلطنت عثمانیہ نے مل کر روس کو شکست دی تھی

کیا یوکرین میں جاری کشیدگی خطے میں ایک بڑے بحران کا باعث بنے گی؟ کیا اس سے تیسری جنگِ عظیم شروع ہو جائے گی؟ عالمی طاقتوں کے پاس موجود بھیانک ہتھیاروں کو دیکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب اگر جنگِ عظیم ہوئی تو یہ بہت مختلف ہوگی۔ بقول شخصے: "مجھے یہ نہیں معلوم کہ تیسری جنگِ عظیم کِن ہتھیاروں سے لڑی جائے گی۔ لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ چوتھی عالمی جنگ لاٹھیوں اور پتھروں سے ہوگی۔”

One Comment

Leave a Reply

One Ping

  1. Pingback:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

بچوں کے لیے سردیوں کا موسم یادگار بنائیں، لیکن کیسے؟

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ، ایک ٹائم مشین