میں

وہ لڑکی جس نے دنیا کو بے وقوف بنایا

ایک ایسا وقت بھی تھا کہ "اِن آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں” تھے۔ انگریزی میں کہیں تو beauty with brains۔ کم عمر ترین سیلف میڈ ارب پتی خاتون، جس کے اعتماد نے دنیا کے بڑے بڑے دماغوں کو چکرا دیا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ میڈیکل کی دنیا میں ایک انقلاب لانے والی ہے۔ پھر اس کی کمپنی کا سرمایہ 9 ارب ڈالرز تک جا پہنچا۔

یہ کتنی بڑی رقم ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے جو بیل آؤٹ پیکیج دیا ہے، اس کی کُل مالیت 6 ارب ڈالرز ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی رقم آئی کہاں سے اور یہ کیسے پتہ چلا کہ یہ اصل میں یہ سب فراڈ ہے؟ یہ کہانی ہے ایک نوجوان لڑکی ایلزبتھ ہومز اور اس کی کمپنی تھیرانوس کی۔

ایلزبتھ ہومز کون؟

ایلزبتھ ہومز فروری 1984ء میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں پیدا ہوئی۔ بچپن ہی سے وہ کہتی تھی کہ میں بڑی ہو کر ارب پتی بنوں گی۔ پڑھائی میں محنت کر کے اسٹین فرڈ یونیورسٹی تک پہنچی۔ پھر ایک یونیورسٹی ٹؤر پر چین میں اس کی ملاقات ایک پاکستانی نژاد امریکی سے ہوئی۔ جس کا نام تھا رمیش بلوانی اور پھر وہ کہانی شروع ہوتی ہے جو بالآخر تھیرانوس تک پہنچی۔ وہ کمپنی جس میں ایلزبتھ ملکہ تھی اور رمیش اُس کا وزیر، بلکہ بدمعاش وزیر۔ کمپنی بنتے ہی ایلزبتھ نے یونیورسٹی چھوڑ دی اور تھیرانوس میں راج کرنے لگیں۔

ایلزبتھ اور رمیش بلوانی

تھیرانوس کمپنی اس دعوے کے ساتھ میدان میں آئی تھی کہ وہ خون کے چند قطروں سے 200 سے زیادہ بیماریوں کے ٹیسٹ کر سکتی ہے۔ یہ ٹیسٹ کہیں بھی موجود تھیرانوس کمپنی کی مشین سے کروائے جا سکتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں آپ کی صحت کی مکمل ترین رپورٹ آپ کے سامنے ہوگی۔

خاتون اسٹیو جابس

ایلزبتھ ہومز اسٹیو جابس کی نقل میں کپڑے بھی ویسے پہننے لگی

ایلزبتھ نے صرف 19 سال کی عمر میں یہ کونسیپٹ پیش کیا تھا اور سب کو ایسا قائل کیا کہ کئی بہت بڑے ادارے اور شخصیتیں اپنے کئی ملین ڈالرز لے کر تھیرانوس پہنچ گئیں۔ کچھ ہی عرصے میں ایلزبتھ کی شہرت عروج پر تھی۔ وہ اتنی مشہور ہو گئی کہ دنیا کے بڑے بڑے میگزین ان پر ٹائٹل اسٹوریز لگانے لگے۔ انہیں خاتون اسٹیو جابس تک کا نام دیا گیا۔ یہ نام اصل میں اس لیے دیا گیا کیونکہ ایلزبتھ اسٹیو جابس جیسے حلیے میں آتی تھی۔ ویسی ہی شرٹ پہننے لگی، ویسے ہی کپڑے اور بولتے ہوئے جان بوجھ کر اپنی آواز ایسی رکھتی، جیسے وہ بہت رعب دار اور حوصلہ رکھنے والی شخصیت ہے۔  

لیکن ایلزبتھ کو معلوم تھا کہ اس کے تمام دعوے ہوائی ہیں۔ اس لیے وہ کمپنی میں سرمایہ لگانے کے لیے دو شرطیں رکھتی تھیں: ایک کہ وہ یہ نہیں بتائے گی کہ کمپنی کی ٹیکنالوجی کس طرح کام کرتی ہے اور دوسری یہ کہ وہ جو بھی فیصلہ کرے گی وہ حرفِ آخر ہوگا۔

کم عمر ترین سیلف میڈ ارب پتی

ایلزبتھ ہومز کے ایک طرف جیک ما اور دوسری طرف بل کلنٹن

یوں ایلزبتھ ہومز دنیا کی سب سے کم عمر سیلف میڈ ارب پتی خاتون بن گئی۔ دنیا کا کون سا بڑا چینل، اخبار یا میگزین نہیں تھا جس پر اس کا نام نہیں آیا۔ وہ ایک ایسے پروگرام میں بھی شریک ہوئی، جس میں اس کے ساتھ سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک جیک ما بیٹھے تھے۔

ایلزبتھ ہومز کس کے ساتھ بیٹھی ہیں؟ پہچانا آپ نے؟

ایلزبتھ کا اور اس کی کمپنی کا اعتماد آسمانوں پر تھا لیکن حقیقت میں کچھ نہیں تھا۔ کمپنی نے جو مشین بنانے کا دعویٰ کیا تھا، وہ اس طرح کام کرتی ہی نہیں تھی۔ لوگوں کے سامنے ظاہر یہ کیا گیا کہ سب ٹیسٹ اُن کی مشین کرتی ہے، جس کو ایڈیسن کا نام دیا گیا تھا۔ کمپنی سمجھتی تھی کہ وہ بالآخر 100 فیصد کا ہدف حاصل کر لے گی، اور جب تک صرف عوام کے سامنے یہ ڈرامہ کرتی رہے گی کہ وہ میڈیکل کی فیلڈ میں ایک انقلاب لا رہی ہے۔ انگریزی میں کہیں تو fake it till you make it۔

لیکن یہ سب آخر کب تک چھپ سکتا تھا؟ بالآخر راز سامنے آنا شروع ہو گئے۔ تب لوگوں کو سائنس دانوں کے وہ اعتراضات بھی نظر آنے لگے جن کو پہلے کوئی لفٹ نہیں کروا رہا تھا۔

ایک ہی پھونک سے ہوائی قلعہ ڈھیر

اکتوبر 2015ء میں پہلی بار تھیرانوس کو بڑا دھچکا لگا۔ مشہور اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے ان کے خلاف ایک تحقیقی رپورٹ لگائی۔ مزیدار بات یہ ہے کہ وال اسٹریٹ جرنل ایک ادارے نیوز کارپوریشن کی ملکیت تھا، جس کے مالک روپرٹ مرڈوک تھے۔ جن کی اپنی سرمایہ کاری بھی تھیرانوس میں تھی۔ جب ایلزبتھ کو پتہ چلا کہ وال اسٹریٹ جرنل میں یہ خبر لگنے والی ہے تو اس نے سیدھا روپرٹ سے رابطہ کیا اور کہا کہ اس خبر کو رکوائیں۔ لیکن روپرٹ مرڈوک کا پروفیشنل ازم دیکھیں، انہوں نے کہا کہ کون سی خبر لگے گی اور کون سی نہیں؟ اس کام کے لیے میں نے اخبار میں ایڈیٹر رکھے ہیں۔ اگر خبر میں کوئی خامی ہوئی تو وہ شائع نہیں کریں گے۔ اور پھر خبر شائع ہو گئی اور تھیرانوس کا ہوائی قلعہ تباہ ہونا شروع ہو گیا۔

تھیرانوس کی "انقلابی” مشین، ایڈیسن

اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ تھیرانوس کی مشین ‘ایڈیسن’ مکمل نتائج نہیں دے رہی۔ جس کی وجہ سے کمپنی خون کے سیمپل جمع کر کے عام لیبارٹری مشینوں پر ٹیسٹ کر رہی ہے اور ان کے رزلٹ نکال کر عوام کو بے وقوف بنا رہی ہے کہ یہ نتائج اصل میں ان کی جدید مشین کا کارنامہ ہیں۔

ایلزبتھ ہومز نے بہت ہاتھ پیر چلائے، بڑی بڑی باتیں کیں اور یہ ظاہر کیا کہ یہ سب بڑے میڈیکل اداروں کی سازش ہے، کیونکہ ان کی مشین سب کے کاروبار ختم کر دے گی۔ لیکن حقیقت اصل میں وہی تھی جو اخبار میں چھپی تھی۔ وہ تمام تر کوشش کے باوجود کسی کو قائل نہیں کر پائی اور پھر اکتوبر 2016ء میں حکومت نے تھیرانوس کو بند کر دیا اور اس پر تالے پڑ گئے۔

‏20 سال قید کا سامنا

ڈیڑھ سال تک تحقیقات چلیں، جس کے بعد ایلزبتھ ہومز کو دھوکا دہی کا مجرم قرار دیا گیا۔ اس سے تمام تر اختیارات اور اثاثے چھین لیے گئے اور 5 لاکھ ڈالرز کا جرمانہ بھی ڈالا گیا۔ پابندی بھی لگی کہ اب وہ دس سال تک کسی بھی ادارے میں بڑے عہدے پر کام نہیں کر سکتی۔

اس فیصلے کے خلاف ایلزبتھ ہومز اپیل کر سکتی ہے لیکن اگر ناکام ہوئی تو اسے 20 سال قید بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسا کب ہوگا؟ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن اس پورے معاملے نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تحریک عدم اعتماد: وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کا طریق کار کیا؟

اگر ایٹم بم پھٹ جائے تو کیا کریں؟