میں

یورپ میں آیوڈین کی گولیوں کی دھڑا دھڑ فروخت، لیکن کیوں؟

اس جدید دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ کیا ہے؟ وہ کون سی ننگی تلوار ہے جو سب کے سروں پر ہر وقت لٹک رہی ہے؟ وہ ہے نیوکلیئر جنگ!

اس وقت دنیا کے 9 ممالک کے پاس 15 ہزار سے زیادہ نیوکلیئر وار ہیڈز ہیں اور اگر ان میں سے کوئی ایک ملک بھی، ایک بھی داغ دے تو اس سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ نیوکلیئر اثرات پوری دنیا پر مرتب ہو سکتے ہیں جو بہت بھیانک ہوں گے۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایک میگا ٹن کا نیوکلیئر بم اگر کسی علاقے پر پھینک دیا جائے تو ایک کلومیٹر کے دائرے میں کچھ بھی نہیں بچے گا، سب کچھ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ 7 کلومیٹرز تک موجود تمام عمارتوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا جبکہ 12 کلومیٹرز کے علاقے میں موجود تمام جاندار بُری طرح جل سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص دھماکے کی جگہ سے 20 کلومیٹرز دُور بھی ہو تو محض اس کی طرف دیکھنے سے اس کی بینائی ہمیشہ کے لیے چلی جائے گی۔

اتنا خطرناک ہونے کی وجہ سے کسی بھی نیوکلیئر جنگ میں بچ پانا مشکل ترین کام ہے۔ لیکن اثرات صرف 20 کلومیٹرز کے دائرے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اگر نیوکلیئر بم بڑا ہو تو بہت بڑے پیمانے پر تباہی پھیل سکتی ہے اور اس سے پھیلنے والی تابکاری بہت بڑے علاقے کو متاثر کر سکتی ہے۔

خدانخواستہ اگر کوئی نیوکلیئر بم پھینک دے تو دوسری بہت سی احتیاطی تدابیر کے علاوہ ایک کام عام کیا جاتا ہے، آیوڈین کی گولیوں کا استعمال۔

اِس وقت جبکہ دنیا پر ایک نیوکلیئر جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ روس کے صدر ولادیمر پوتن نے یوکرین کے ساتھ جاری جنگ کے دوران اپنی نیوکلیئر ڈیٹرنس فورس کو ہائی الرٹ کر دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی یورپ میں آیوڈین کی گولیوں کی فروخت اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔

یہ اضافہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب یوکرین کے دو نیوکلیئر پلانٹس چرنوبیل اور زاپوریژیا کے قریب جنگ جاری ہے۔

فرانس نے تو یوکرین کو دیگر ادویات کے ساتھ ساتھ آیوڈین کی گولیاں کی بھیجی ہیں تاکہ جنگ کے دوران اگر کوئی نیوکلیئر حادثہ پیش آ جائے تو ملک اپنے شہریوں کو محفوظ رکھ سکے۔

بیلجیئم میں صرف ایک دن میں آیوڈین کی گولیوں کے 30 ہزار ڈبے نکل چکے ہیں۔ دوا فروشوں کو ہدایت ہے کہ یہ گولیاں مفت تقسیم کی جائیں اور ملک میں کوئی بھی شخص اپنا شناختی کارڈ دکھا کر یہ گولیاں حاصل کر سکتا ہے۔

اُدھر فِن لینڈ اور نیدرلینڈز میں بھی آیوڈین کی گولیوں کی فروخت تیزی سے جاری ہے بلکہ روس-یوکرین جنگ کے آغاز میں ہی ان کی فروخت اتنی بڑھ گئی تھی اب کئی دوا خانوں پر اسٹاک ہی ختم ہو چکا ہے۔ فِن لینڈ میں حکام نے خبردار کیا ہے کہ آیوڈین کی گولیوں کی ذخیرہ اندوزی نہ کی جائے۔

یہ تو چلیں نسبتاً دُور واقع ممالک ہیں۔ وسطی یورپ میں تو صورت حال ذہنی اضطراب تک جا پہنچی ہے۔ پولینڈ اور رومانیہ، جن کی سرحدیں یوکرین کے ساتھ ملتی ہیں، وہاں آیوڈین کی گولیوں کی فروخت عروج پر ہے۔ چیک جمہوریہ، کروشیا اور بلغاریہ میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ بلغاریہ کی فارمیسیز یونین کے مطابق صرف چھ دنوں میں آیوڈین کی اتنی گولیاں فروخت ہوئی ہیں، جتنی ایک سال میں ہوتی ہیں۔

لیکن آیوڈین پر ہی زور کیوں؟ اصل میں آیوڈین کی گولیاں کسی بھی نیوکلیئر دھماکے یا حادثے کی صورت میں گلے کے کینسر کے خطرے کو کم کر سکتی ہیں۔

اصل میں جب بھی کوئی ایسا واقعہ یا حادثہ پیش آتا ہے تو فضا میں موجود تابکاری کے اثرات تھائرائیڈ گلینڈز میں جذب ہو جاتے ہیں۔ آیوڈین کی گولیاں انہیں جذب ہونے سے روکنے میں مدد دیتی ہیں اور یوں گلے کے کینسر کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

‏2011ء میں جب جاپان میں سونامی کے نتیجے میں فوکوشیما نیوکلیئر پلانٹ تباہ ہوا تھا تو حکام نے ارد گرد کے علاقوں میں عوام کو آیوڈین کی گولیاں استعمال کرنے کی تجویز دی تھی۔

لیکن اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ تابکاری کے علاقے سے دُور نکل جانا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نیوکلیئر جنگ کی صورت میں تو آیوڈین کی گولیاں بھی کام آنے والی نہیں۔

ویسے اگر آپ کسی محفوظ مقام کی جانب جانا چاہتے ہیں تو ہمارے خیال میں تیسری عالمی جنگ کی صورت میں یہ جگہیں سب سے محفوظ ہوں گی:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

[وڈیوز] کرسٹوفر کولمبس اور امریکا کی دریافت، تاریخ کا ایک بھیانک پہلو

تحریک عدم اعتماد: وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کا طریق کار کیا؟