میں

روس-یوکرین جنگ میں دنیا کا سب سے بڑا طیارہ تباہ

اگر یہ خبر سچ ہے تو ہوا بازی کی دنیا کے لیے 28 فروری ہمیشہ ایک افسوس ناک دن رہے گا۔ خبر یہ ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کے دوران دنیا کا سب سے بڑا طیارہ انتونوف اے این-225 تباہ ہو گیا ہے۔

اس طیارے کو نہ صرف یوکرین بلکہ دنیا بھر میں ایک خاص اہمیت اور حیثیت حاصل تھی۔ دنیا کا سب سے بڑا طیارہ کئی ریکارڈز رکھتا تھا مثلاً سب سے بڑا سنگل کارگو اٹھانے کا ریکارڈ کہ جس کا وزن 1,89,890 کلو تھا۔ پھر کُل 2,53,8200 کلو وزن اٹھانے کا عالمی ریکارڈ بھی اسی جہاز کے پاس تھا۔ کمرشل فلائٹ میں بھی اس نے 2,47,000 کلو کا پے لوڈ اٹھا رکھا تھا۔ جبکہ سب سے لمبا 42.1 میٹرز کا کارگو اٹھانے کا ریکارڈ بھی اے این-225 کے پاس تھا جب اس نے ایک ونڈ ٹربائن کے دو بلیڈز چین سے ڈنمارک پہنچائے۔

اس طیارے کو یوکرین کے لوگ "مریا” یعنی "خواب کہتے تھے۔ یہ دارالحکومت کیف کے قریب ہوستومل ایئر فیلڈ پر موجود تھا جب روس کے حملے میں یہ جل کر تباہ ہو گیا۔

ویسے اے این-225 کی تباہی کی آزاد ذرائع سے کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ خود انتونوف کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ہوائی جہاز کی حالت کی تصدیق نہیں کر سکتی جب تک کہ ماہرین اس کا اچھی طرح معائنہ نہ کر لیں۔

البتہ یوکرین کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ روس نے ہمارا خواب (مریا) تباہ ضرور کیا ہے لیکن وہ کبھی ایک مضبوط، آزاد اور جمہوری یورپی ریاست کے خواب کو توڑ نہیں سکے گا۔

دوسری طرف جہاز کے معاملات دیکھنے والے یوکرین کے سرکاری دفاعی ادارے یوکروبورونپروم کا کہنا ہے کہ یہ ہوائی جہاز تباہ ہو گیا ہے اور اسے روس کے پیسوں سے دوبارہ بنایا جائے گا۔ بیان کے مطابق اس جہاز کو دوبارہ بحال کرنے میں پانچ سال اور 3 ارب ڈالرز کا خرچا آئے گا۔ ہم اس کی ایک، ایک پائی روس سے وصول کریں گے کیونکہ اس نے جان بوجھ کر یوکرین کے ہوا بازی کے شعبے کو نقصان پہنچایا ہے۔

یہ ہوائی جہاز 24 فروری کو مرمت کے لیے اس ایئر فیلڈ پر آیا تھا اور اس کے ایک انجن کی مرمت کا کام چل رہا تھا اس لیے جہاز کو وہاں سے فوری طور پر اڑا کر کسی دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جا سکتا تھا۔

سیٹیلائٹ تصاویر سے بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ اس ہینگر کو بہت نقصان پہنچا ہے جہاں اے این-225 کھڑا تھا۔

اگر اس تباہی کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ ایک عظیم طیارے کا افسوس ناک انجام ہوگا۔ یہ تاریخ کا سب سے ہیوی ویٹ طیارہ تھا کہ جس کے دونوں پروں کے درمیان فاصلہ بھی کسی بھی دوسرے جہاز سے زیادہ تھا۔ یہ تاریخ میں بننے والا واحد اے این-225 طیارہ تھا کیونکہ کمپنی صرف ایک جہاز ہی بنا پائی تھی جبکہ اس سلسلے کا دوسرا جہاز آج تک مکمل نہیں ہو پایا۔

اس جہاز نے اپنی پہلی پرواز 1988ء میں کی تھی اور جب 1991ء میں سوویت یونین کا خاتمہ ہوا تو یہ یوکرین کے حصے میں آیا۔ یوکرین کے اپنے معاشی مسائل تھے، اس لیے کئی سالوں تک یہ جہاز کسی استعمال تک نہیں کیا گیا اور پرواز کے قابل بنانے کے لیے اس پر کافی کام بھی کرنا پڑا۔ 2001ء میں یہ ایک مرتبہ پھر فضاؤں میں اڑنے کے قابل ہو گیا۔

کُل چھ انجن رکھنے والا یہ دیو ہیکل جہاز بہت خاص کارگو اٹھانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا یہی وجہ ہے کہ اس کی پرواز ایک بہت بڑا ایونٹ ہوتی تھی۔ یہ جہاں جاتا وہاں لوگوں کا جم غفیر اسے دیکھنے کے لیے آتا تھا اور ایئر شوز کی تو یہ جان تھا۔

اپریل 2018ء میں یہ پہلی بار پاکستان آیا جب ملائیشیا سے سعودی عرب جاتے ہوئے یہ ایندھن بھروانے کے لیے کراچی اترا تھا۔ کچھ مہینے پہلے بھی یہ کراچی آیا تھا۔ یہ 23 جون 2021ء کی دوپہر تھی جب یہ کابل سے کراچی پہنچا تھا۔ اگلے دن جب یہ کراچی سے اپنی منزل کی جانب روانہ ہوا تو اس کے چھ انجنوں سے نکلنے والی آواز سے آدھا شہر پر لرز اٹھا تھا۔

افسوس اس بات کا ہے کہ یہ آواز شاید کبھی دوبارہ سنائی نہ دے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اژدرِ شعلہ فشاں: آج پاک فضائیہ کے لیے ایک قابلِ فخر دن

[وڈیوز] ایک قوم کے وِلن، دوسری قوم کے ہیرو