میں

اژدرِ شعلہ فشاں: آج پاک فضائیہ کے لیے ایک قابلِ فخر دن

آج 27 فروری ہے، وہ تاریخی دن جس نے طے کیا کہ اب خطے طاقت کا توازن برقرار رہے گا اور بھارت کی بد معاشی نہیں چلے گی۔

‏2019ء ایک ہنگامہ خیز سال تھا۔ 14 فروری کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلواما میں ایک خود کش حملے میں قابض بھارتی فوج کے 46 اہلکار مارے گئے تو لائن آف کنٹرول پر کشیدگی بہت بڑھ گئی کیونکہ بھارت نے ہمیشہ کی طرح اپنی نا اہلی کا الزام پاکستان پر ہی لگایا۔ معاملات بہت خطرناک روپ اختیار کر گئے جبکہ 26 فروری کو رات کے اندھیرے میں بھارت کے چند طیارے پاکستان کے شہر بالاکوٹ پر بم برسا گئے۔ یہ 1971ء کی جنگ کے بعد پہلا موقع تھا کہ بھارت نے لائن آف کنٹرول کے پار کوئی فضائی کار روائی کی ہو۔

یہ 6 میراج 2000 طیارے تھے جنہوں نے مقبوضہ کشمیر کی فضائی حدود ہی سے اپنے گلائیڈ بم داغے اور پاکستانی طیاروں کو آتا دیکھ کر واپس فوراً پلٹ گئے۔ ان کے پھینکے گئے اسرائیلی ساختہ اسپائس 2000 بم پاکستانی شہر بالا کوٹ کے قریب آ کر گرے۔

گو کہ بھارت کی اس بزدلانہ کار روائی میں کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا، لیکن اس کا جواب دینا بہت ضروری تھا کیونکہ بھارت نے دہشت گردوں کے اڈوں کو جواز بنا کر جو قدم اٹھایا تھا اگر اس کا جواب نہ دیا جاتا تو یہ ‘معمول’ بن سکتا تھا ۔ بھارت کی علاقائی چوہدراہٹ کا خاتمہ کرنے کے لیے پاکستان نے فوراً اعلان کیا کہ وہ اس حرکت کا بھرپور جواب دے گا، ،لیکن اپنی مرضی کے وقت پر اور اپنی منتخب کردہ جگہ پر اور پھر اگلے ہی روز پاکستان نے صرف بھارت ہی کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو حیران کر دیا۔

پاک فضائیہ کے مختلف طیارے، ایف-16، جے ایف-17، میراج V اور ایف-7

پہلے پاک فضائیہ نے مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے کچھ بڑے اڈوں کو نشانہ بنایا اور پھر جوابی کار روائی کے لیے آزاد کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے دو بھارتی لڑاکا طیاروں کو مار گرایا۔ بھارت ایسا بد حواس ہوا کہ خود اپنا ہی ایک ہیلی کاپٹر مار گرایا جس میں چھ افراد مارے گئے۔

پاک فضائیہ کے اس مشن کی خاص بات یہ تھی کہ پاکستان کے لڑاکا طیاروں نے راجوڑی ہیڈ کوارٹر کو بھی ہلا کر رکھ دیا، جہاں بھارت کی اعلیٰ فوجی قیادت موجود تھی۔ پاکستان چاہتا تو ایک اشارے سے سب کو خاک میں ملا دیتا لیکن کیونکہ پاکستان کا مقصد جارحیت کرنا نہیں تھا، بس صرف ثابت کرنا تھا کہ وہ کسی بھی اٹھتی ہوئی آنکھ اور انگلی کو پھوڑنے اور توڑنے کی صلاحیت و اہلیت رکھتا ہے۔ اس لیے تمام تر گولا بارود ہیڈ کوارٹر کے قریب ہی پھینکا گیا، ڈھائی ہزار پونڈز کے ایچ-4 بموں کے دھماکوں نے بھارتی فوج کے اوسان خطا کر دیے ہوں گے۔

پاک فضائیہ کا میراج طیارہ اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہوئے۔ مصور ریحان سراج کا تصوراتی خاکہ

اس تاریخی آپریشن میں پاک فضائیہ نے کُل 18 طیارے استعمال کیے کہ جن میں میراج V اور جے ایف-17 پیش پیش تھے۔ بھرپور کار روائی کے بعد مقبوضہ کشمیر کی فضا سے کئی بھارتی طیارے نمایاں ہوئے جن میں سے دو پاکستان نے مار گرائے۔ ایک جدید سو-30 طیارہ تھا جو مقبوضہ وادی ہی میں جا گرا اور یہی وجہ ہے کہ بھارت آج تک انکاری ہے کہ اس کا کوئی سو-30 طیارہ بھی گرا تھا۔ لیکن دوسرا وہ مشہورِ زمانہ مگ-21 تھا جو اپنے پائلٹ سمیت آزاد کشمیر میں گرا اور پاکستان نے ابھینندن ورتھامن نامی پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔

بھارتی فضائیہ کے مگ-21 کا ملبہ

روسی ساختہ سو-30 طیارے کو مار گرانے کا کارنامہ اسکواڈرن لیڈر حسن صدیقی نے انجام دیا۔ پاکستانی فضائیہ کے ایواکس طیاروں نے دشمن کے جہازوں کی تمام کمیونی کیشن جام کر دی تھی، جس کا پورا فائدہ حسن صدیقی نے اٹھایا اور ایک سو-30 کو ٹھکانے لگا دیا۔ اپنے ساتھی کا انجام دیکھ کر دوسرا طیارہ بھاگ کھڑا ہوا۔

پھر اس طیارے کے ریسکیو مشن پر جانے والا ہیلی کاپٹر بھارت کے ‘سورماؤں’ نے خود ہی مار گرایا۔ یہ روسی ساختہ ایم آئی-17 ہیلی کاپٹر تھا، جس میں 5 فوجی اہلکار سوار تھے۔ غالباً یہ گرنے والے سو-30 کے لیے ریسکیو آپریشن کرنے جا رہا تھا کہ راستے میں ‘اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔’ اسرائیلی ساختہ اسپائیڈ سسٹم نے زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل داغا اور یہ ہیلی کاپٹر بڈگام کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔ سوار تمام اہلکار بھی مارے گئے اور زمین پر بھی ایک ہلاکت ہوئی۔

پاکستان کے حملے سے بد حواس ہو کر بھارت نے اپنا ہی ہیلی کاپٹر مار گرایا

تب سری نگر سے مگ-21 طیاروں کی ایک فارمیشن پرواز بھرتی نظر آئی اور جیسے ہی وہ فضا میں پہنچے، ان کی کمیونی کیشن بھی جام کر دی گئی۔ وہ اندھوں کی طرح اِدھر اُدھر ہاتھ پیر مارنے لگے یہاں تک کہ ابھینندن کا جہاز لائن آف کنٹرول ہی پار کر گیا، جہاں اس کی موت کا سامان موجود تھا۔ وِنگ کمانڈر نعمان علی خان نے میزائل داغا، جو سیدھا اس کو لگا اور مگ-21 طیارہ زمین پر آ رہا۔ بھارت نے شروع میں تو انکار کیا کہ اس کا کوئی جہاز نہیں گرا، لیکن کیونکہ یہ جہاز آزاد کشمیر میں گرا تھا اس لیے اس جھوٹ کو چھپانا ممکن نہیں تھا۔

یاد رہے کہ یہ سب عین اس وقت ہوا جب بھارتی فوج ہائی الرٹ تھی۔ پاکستان نے ایک دن پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ جوابی کار روائی کرے گا اور ضرور کرے گا۔ پھر پاکستان نے یہ سب کچھ دن دیہاڑے کیا، بزدلوں کی طرح رات کے اندھیرے میں بم پھینک کر فرار نہیں ہوئے بلکہ دشمن کی چولیں ہلا کر پھر آئے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابات میں فائدہ اٹھانے کے لیے جو قدم اٹھایا تھا، اس کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑی۔

پاکستان نے اس دن ثابت کیا کہ پیشہ ورانہ صلاحیت اور قابلیت کیا ہوتی ہے؟ دشمن کے خلاف لڑنے کے لیے کس طرح ہمہ وقت تیار رہا جاتا ہے اور وقت پڑنے پر کس طرح کار روائی کی جاتی ہیں۔ اُس دن بھارت کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے کھل گئی ہوں گی اور واضح ہو گیا کہ وہ پاکستان کے خلاف جارحیت نہیں کر سکتا۔ بھارت سمجھ رہا تھا کہ وہ دہشت گردوں کو ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے نام پر پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرے گا اور پاکستان زہر کا گھونٹ پی کر خاموش ہو کر بیٹھ جائے گا۔ لیکن پاکستان نے نئی سرخ لکیر کھینچ کر ثابت کر دیا کہ ایسی کسی بھی حرکت کا انجام یہ ہوگا۔

بھارت کو ایسا دھچکا پہنچا کہ اگلے روز ہی مغربی کمان کے ایئر آفیسر کمانڈنگ ان چیف نے استعفیٰ دے دیا ۔ جس کے بعد ذلت سے بچنے کے لیے بڑے جھوٹ تراشے گئے، جیسا کہ ابھینندن نے اپنے مگ-21 سے پاک فضائیہ کے ایک ایف-16 کو مار گرایا تھا۔ لیکن جناب! اس مگ-21 کا ملبہ پاکستان کے پاس تھا۔ جو بھارت کی جھوٹ کی فیکٹریوں کی قلعی کھولنے کے لیے کافی تھا۔  پاکستان نے سب کچھا چٹھا کھول کر رکھ دیا کہ اس طیارے پر دونوں فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل موجود تھے۔ بلکہ ان کی موٹرز تک موجود ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ میزائل فائر کرنے کی کوشش تک نہیں ہوئی۔ پھر اس جہاز کے ساتھ فیول ٹینک بھی موجود تھا جو ظاہر کرتا ہے کہ ابھینندن نے لڑائی کا سوچا تک نہیں تھا کیونکہ کسی بھی ڈاگ وائٹ میں پائلٹ سب سے پہلے اپنے فیول ٹینک گراتا ہے۔ یعنی بھارتی پائلٹ نے لڑائی کا پہلا قدم تک نہیں اٹھایا تھا کہ شاہینوں کا وار ہو گیا۔

آج بھارت کا یہ طیارہ کراچی میں واقع فضائیہ کے میوزیم میں موجود ہے۔ اس دن کے حوالے سے ایک خاص گیلری بھی بنائی گئی ہے جس میں تمام تفصیلات اور معلومات بھی موجود ہیں اور بھارتی پائلٹ ابھینندن کا یونیفارم بھی۔

اس کارنامے پر پاکستان نے حسن صدیقی کو تمغہ جرات اور نعمان علی خان کو ستارۂ جرات سے نواز جبکہ مشن کے دیگر اہم اراکین کو بھی کئی اعزازات دیے گئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

فلموں کے ولن کو بدشکل کیوں دکھایا جاتا ہے؟

روس-یوکرین جنگ میں دنیا کا سب سے بڑا طیارہ تباہ