میں

پاکستان میں "غلطی” سے گرنے والا بھارتی میزائل کونسا تھا؟

زیادہ عرصہ نہیں گزرا، بھارت کا ایک لڑاکا جہاز اور اُس کا پائلٹ پاکستان آ گیا تھا، ہم نے چائے شائے پلا کر اسے تو فارغ کر دیا تھا لیکن اِس بار پورا میزائل ہی یہاں آ گیا ہے۔ 9 مارچ 2022ء کی شام یہ خبر پتہ چلی کہ پنجاب کے شہر میاں چنوں کے قریب آسمان سے کوئی چیز گری ہے۔ کسی نے اسے ڈرون کہا، کسی نے کہا یہ میزائل لگتا ہے۔ پھر اگلے روز پاکستان نے اعلان کیا کہ اصل میں یہ ایک میزائل تھا جو بھارت سے فائر کیا گیا تھا۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ 9 مارچ کی شام 6 بجکر 43 منٹ پر بھارت کی ریاست ہریانہ سے ایک میزائل فائر کیا گیا، جس نے سیدھا جاتے جاتے اچانک اپنا رخ بدل لیا اور پاکستان کی طرف آ گیا۔ یہ شام 6 بجکر 48 منٹ کا وقت تھا، جب یہ میزائل 40 ہزار فٹ کی بلندی پر پاکستان کی سرحد میں داخل ہوا۔ تب اس کی رفتار آواز سے ڈھائی سے تین گُنا زیادہ تھا، یعنی یہ سپر سونک موڈ میں تھا۔ بعد میں یہ ہارون آباد اور بوریوالا کے اوپر سے ہوتے ہوئے میاں چنوں کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔

اگلے دن بھارت نے بھی کہا کہ بھیا! ہم سے "غلطی” ہو گئی، ہم سے ایک میزائل چل گیا تھا۔ ہمیں افسوس ہے اور ہم اس معاملے کی پوری تحقیقات کریں گے۔

دونوں ملکوں نے اپنے بیانات میں کسی میزائل کا نام نہیں لیا، لیکن یہ بات تو سب جان ہی چکے ہیں کہ یہ برہموس میزائل تھا۔ کیوں؟ کیونکہ بھارت کے پاس سپر سونک میزائل ایک ہی ہے۔ تو اس سے پہلے کہ ہم بات کریں بھارت کی غفلت پر، غیر ذمہ داری پر، پاکستان کے سلجھے ہوئے رویّے اور اس واقعے کی اہمیت پر، پہلے آپ کو بتاتے ہیں کہ آخر یہ برہموس ہے کیا؟

برہموس ایک سپر سونک کروز میزائل ہے، جسے زمین، فضا اور سمندر تینوں جگہ سے فائر کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ تو آبدوز سے بھی داغا جا سکتا ہے۔ اسے دنیا کا سب سے تیز سپر سونک میزائل کہتے ہیں۔ سپر سونک کا مطلب ہے آواز سے دو گنی رفتار سے اور کروز کا مطلب ہے مستقل ہی ایک رفتار پر اڑنے والا میزائل۔

برہموس دوسرے کروز میزائلوں کی طرح بہت کم بلندی پر اُڑ سکتا ہے تاکہ یہ ریڈار پر نہ آئے جبکہ بھارت کا کہنا ہے کہ یہ 50 ہزار فٹ کی بلندی تک بھی پرواز کر سکتا ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں داخل ہونے والا میزائل بھی 40 ہزار فٹ کی بلندی پر تھا۔ برہموس کی زیادہ سے زیادہ رینج 650 کلومیٹرز بتائی جاتی ہے۔

بھارت نے یہ میزائل روس کی مدد سے بنایا ہے اور اس کے ایک میزائل کی قیمت تقریباً ساڑھے 27 لاکھ ڈالرز ہے۔

آؤٹ آف کنٹرول میزائل سے بڑا حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا!

اب آتے ہیں اس واقعے کی طرف۔ یہ "غلطی” سے فائر ہونے والا میزائل عین اس راستے سے گزرا ہے جہاں سے کئی انٹرنیشنل پروازیں آتی جاتی ہیں۔ پاکستان میں یہ میزائل جن راستوں سے گزرا، اُس وقت بھی یہاں دو انٹرنیشنل فلائٹس موجود تھیں۔ اگر یہ آؤٹ آف کنٹرول میزائل کسی بھی مسافر طیارے کو لگ جاتا تو آپ سمجھ سکتے  ہیں کہ کیا ہوتا۔ بھارت نے تو تسلیم ہی نہیں کرنا تھا کہ اس سے کوئی غلطی ہوئی ہے اور سارا الزام پاکستان کے سر پر آ جاتا۔

یہ بات آپ کو پتہ ہونی چاہیے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک معاہدہ ہے کہ دونوں ملک اپنے کسی بھی میزائل ٹیسٹ کے بارے میں پہلے سے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں۔ چلیں، یہ میزائل تو اچانک "غلطی” سے چل گیا، لیکن دو دن تک بھارت نے اپنی غلطی قبول نہیں کی، نہ ہاٹ لائن پر کوئی رابطہ کی اور نہ ہی کوئی وضاحت کی۔ یہ خاموشی کیوں؟

پھر ایک اور سوال، کیا برہموس میزائل میں self-destruction کا کوئی نظام نہیں تھا؟ اگر یہ اپنے راستے سے بھٹک گیا تھا تو اسے فضا ہی میں تباہ کر دینا چاہیے تھا۔ ایسا بھی نہیں ہوا، یہ تو صحیح سالم حالت میں پاکستان پہنچ گیا۔ یہ تو قسمت اچھی تھی کہ میزائل میں وار ہیڈ نہیں تھا، یہ کسی شہری آبادی یا فوجی اڈے سے نہیں ٹکرایا ۔ پھر اِس وقت پاکستان میں سیاست کا میدان گرم ہے، بھارت میں بھی الیکشن چل رہے ہیں اور باقی دنیا کی نظریں یوکرین اور روس کی جنگ پر ہیں، ورنہ اس واقعے پر بہت لے دے ہوتی۔

پاکستان کو جتنی داد دی جائے کم

اس واقعے کے بعد پاکستان کی ذمہ داری اور معاملہ فہمی کو جتنی داد دی جائے کم ہے۔ پاکستان نے ایک مرتبہ پھر انتہائی سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہے اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے حالات خراب ہوں۔ یہاں ذرا سی غلط فہمی، تھوڑی سی بھول چُوک بہت بڑا مسئلہ کھڑا کر سکتی تھی۔ پاکستان جانتا تھا کہ بھارت سے کچھ فائر کیا گیا ہے، اس چیز کا رُخ بھی پاکستان کی طرف ہی ہے، اس کی رفتار بھی بہت زیادہ ہے اور اس کا نشانہ ملک میں کوئی بھی جگہ ہو سکتی ہے۔ اگر یہاں پاکستان گھبرا کر جواب میں کوئی  میزائل داغ دیتا تو حالات بہت بگڑ سکتے تھے بلکہ ایٹمی جنگ بھی چھڑ سکتی تھی۔ پھر جو نقصان ہوتا، وہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

پاکستان کے مقابل میں ذرا بھارت کا کردار دیکھیں۔ اس نے بے انتظامی، بے احتیاطی اور سنگین غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ صرف پچھلے چند سالوں میں ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ مثلاً 3 ارب ڈالرز کی ایٹمی آبدوز تباہ ہو گئی کیونکہ اس کا دروازہ ٹھیک سے بند نہیں کیا گیا تھا اور ایسے ہی غوطہ لگا دیا۔ پھر 2019ء میں اُس وقت اپنا ہی ہیلی کاپٹر کو مار گرایا، جب فوج ہائی الرٹ تھی اور اب یہ میزائل "غلطی” سے دشمن پر فائر کر دیا ہے۔

بھارت کا بھیانک ماضی

صرف یہ واقعات ہی نہیں ہیں بلکہ اکتوبر 2019ء میں تو حد ہی کر دی۔ بھارت نے افغانستان جانے والی ایک پرواز کو ایسا کوڈ دے دیا تھا، جو بھارت کی فضائیہ استعمال کرتی ہے۔ یہ پرائیوٹ ایئر لائن اسپائس جیٹ کا جہاز تھا جس میں 120 مسافر موجود تھے جو دلّی سے کابل جا رہے تھے۔

اب پاکستان کے ریڈارز پر آ رہا تھا کہ بھارتی فضائیہ کا ایک جہاز پاکستان کی طرف بڑھ رہا ہے بلکہ حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ پاکستان چاہتا تو اسے نشانہ بنا کر اُڑا دیتا لیکن یہ ذمہ داری کا احساس اور حد درجہ احتیاط ہے جو آپ کو ایسے فیصلوں سے روکتا ہے۔ پاک فضائیہ کے دو ایف-16 طیارے فضا میں بلند ہوئے، انہوں نے اس جہاز کو خود دیکھا اور اطلاع دی کہ یہ مسافر طیارہ ہے، جو غلط کوڈ کے ساتھ پرواز کر رہا ہے۔ پھر اسے پاکستان سے افغانستان کی سرحد تک پہنچایا۔

اب یہ غفلت تھی یا جان بوجھ کر کی گئی حرکت، لیکن نتیجہ بہت بھیانک ہو سکتا تھا۔ تصور کیجیے کہ پاکستان اسے بھارتی فضائیہ کا جہاز سمجھ کر میزائل سے اڑا دیتا۔  120 معصوم لوگ ایک لمحے میں ختم ہو جاتے۔ ویسے لگتا ہے کسی نے اس جہاز اور مسافروں کو چارے کے طور پر استعمال کیا تھا تاکہ پاکستان کوئی انتہائی قدم اٹھائے اور پھر تمام تر الزام اس کے سر پر ڈالا جا سکے۔

آخر کب تک؟

اس میزائل واقعے نے بھی ایک مرتبہ پھر سب کو حیران اور پریشان کر دیا ہے۔ آخر پاکستان کب تک بھارت کی ایسی بے وقوفانہ حرکتوں اور چال بازیوں پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا رہے گا؟ ذرا سوچیں کہ اگر یہ واقعہ اُلٹ ہوتا یعنی پاکستان کا کوئی میزائل بھارت میں جا گرتا تو کیا ہوتا؟ کیا وہ اتنا ہی "شانت” رہتا؟ کیا دنیا کے باقی ملک بھی ایسے خاموش رہتے، جیسے ابھی ہیں؟

اس لیے پاکستان کو چاہیے کہ اس واقعے کو بالکل ہلکا نہ لے، پوری شدت کے ساتھ تمام عالمی فورمز پر آواز اٹھائے اور آئندہ کے لیے خبردار کرے کہ ایسی کسی حرکت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

دفترِ خارجہ پاکستان نے بھی کہا ہے کہ ایسے سنجیدہ معاملات محض وضاحت سے حل نہیں ہوتے۔ بھارت کی جانب سے تحقیقات کا کہہ دینا کافی نہیں بلکہ پاکستان مطالبہ کرتا ہے کہ اس واقعے کی مشترکہ تحقیقات ہونی چاہئیں۔ پھر بھارت اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے اپنے اقدامات بھی واضح کرے۔

پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آخر بھارت نے فوری طور پر پاکستان کو کیوں نہیں بتایا اور انتظار کیا کہ پاکستان پہلے اس واقعے کی اطلاع دے؟ یہ میزائل بھارت کی افواج استعمال کر رہی ہیں یا یہ دیگر عناصر کے ہاتھوں میں ہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

[وڈیوز] سلطنتِ عثمانیہ کی تاریخ کے چند منفرد پہلو

کیا نابینا افراد بھی خواب دیکھتے ہیں؟