میں

انسانوں کا سب سے بڑا قاتل کون؟

کسی سے بھی پوچھ لیں کہ دنیا خطرناک ترین جانور کون سا ہے جو ہر سال لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے؟ تو زیادہ تر لوگوں کا جانور شیر، بھیڑیا، مگر مچھ یا شارک ہی ہوں گے۔ کیونکہ یہی وہ جانور ہیں جو اپنی اپنی شکار کی صلاحیتوں اور خونخواری کی وجہ سے مشہور ہیں۔

شارک، شیر، بھیڑیا، مگر مچھ؟

لیکن کیا حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے؟ انسان کے سب سے بڑے قاتل کا پتہ چلانے سے پہلے ذرا ان جانوروں کی "آدم خوری” کو بھی جانچ لیتے ہیں۔ شارک سے دنیا بھر میں اوسطاً سالانہ صرف 10 افراد مرتے ہیں۔ بھیڑیا، ہمارے معاشرے میں وحشی جانوروں کی اعلیٰ ترین مثال بھیڑیا بھی ایک سال میں اوسطاً 10 انسان ہی مار پاتا ہے۔

اب چلتے ہیں شیر کی طرف، جس کی کہانیاں نسل در نسل چلتی چلی آ رہی ہیں۔ آدم خور شیر تو گویا داستانوں کا حصہ ہی ہے۔ لیکن اس کے ہاتھوں سال بھر میں مرنے والے لوگوں کی تعداد بھی اوسطاً 100 ہی ہوگی۔ پھر دیوہیکل جانور ہاتھی اور دریائی گھوڑے بھی سال بھر میں 100 انسانوں ہی کو مار پاتے ہیں۔

ہارر فلموں سے تو ایسا لگتا ہے مگر مچھ کو انسانوں سے خاص دشمنی ہے اور یہ کسی بھی انسان کو قریب پاتے ہی اسے ہڑپ کر جاتا ہے، لیکن اس کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد بھی اوسطاً 1,000 سے تجاوز نہیں کرتی۔

وفادار ترین جانور؟

تو آخر انسانوں کے بڑے قاتل ہیں کون؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام ہیبت ناک جانور تو انسانوں کا اتنا بڑا نقصان نہیں کرتے، جتنا جانی نقصان معمولی کیڑے پہنچاتے ہیں۔ جیسا کہ افریقہ کی سی سی مکھی (tsetse fly) کو لے لیں، جس کے ہاتھوں ہر سال 10 ہزار انسان مرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ انسانوں کا وفادار کتا بھی سالانہ 25 ہزار انسانی اموات کا سبب بنتا ہے۔ ہاں! ایک خطرناک جانور ضرور یہاں موجود ہے، سانپ، جس سے ہر سال دنیا بھر میں 50 ہزار لوگ مارے جاتے ہیں۔

سانپ سے بھی خطرناک

لیکن سانپ سے بھی زیادہ خطرناک ہے ایسا جانور، جس کے معمولی ہونے کی مثالیں دی جاتی ہیں، اس کا نام ہے مچھر! اور یہ کسی بھی دوسرے جانور سے زیادہ بلکہ کئی گُنا زیادہ انسانوں کو قتل کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مچھر کے کاٹنے سے ہونے والی بیماریوں کے نتیجے میں ہر سال دنیا بھر میں 7,25,000 انسان مارے جاتے ہیں۔

مچھروں سے ہونے والا صرف ایک مرض ملیریا ہی سالانہ 6 لاکھ اموات کا سبب بنتا ہے جبکہ ان کے کاٹے سے بیمار ہونے والوں کی تعداد 20 کروڑ سے زیادہ ہے۔

خطرناک ترین امراض کا حامل

دنیا میں جہاں جہاں انسان بستے ہیں، وہاں یا ننھا قاتل موجود ہے لیکن اس کا زیادہ تر زور ٹراپیکل ریجن یعنی منطقہ حارہ کے علاقوں میں چلتا ہے۔ پاکستان بھی انہی علاقوں میں آتا ہے، جہاں سردیوں کا موسم آہستہ آہستہ جا رہا ہے اور بہار کے ساتھ مچھروں کی یلغار ہونے والی ہے۔ یعنی بیماریوں کا سیزن شروع!

ایک زمانہ تھا کہ مچھروں سے صرف ملیریا پھیلتا تھا، لیکن اب ایک سے بڑھ کر ایک موذی مرض آنے لگا۔ ڈینگی، چکن گنیا، زیکا اور نجانے کیا کیا؟

یہ سب بہت خطرناک امراض ہیں، ملیریا کی طرح ڈینگی اور چکن گنیا کا بھی اگر بر وقت اور درست علاج نہ کیا جائے تو اس سے انسان مر بھی سکتا ہے۔ زیکا سے مرتے تو نہیں ہیں لیکن حاملہ خواتین پر اس کے بھیانک اثرات پڑتے ہیں کیونکہ اگر زیکا وائرس کا مچھر انہیں کاٹ لے تو ان کے بچے پیدائشی طور پر معذور پیدا ہوتے ہیں۔

مچھروں کے  خاتمے کا کوئی طریقہ بھی ہے؟

تو مچھروں سے بچنے یا انہیں ختم کرنے کا کوئی طریقہ بھی ہے؟ لوگ دنیا بھر میں مچھروں سے بچاؤ کے لیے مختلف مصنوعات استعمال کرتے ہیں لیکن یہ کم بخت اتنے پکّے ہوتے ہیں کہ کچھ عرصے بعد ان کے جسم میں مدافعت پیدا ہو جاتی ہے اور کوئی نسخہ ان پر کارگر ہوتا ہی نہیں۔

لیکن ایک چیز ایسی ہے، جس کی افادیت آج تک موجود ہے اور سائنس دان کہتے ہیں کہ اگر اسے دوسرے کیمیائی مادّوں کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جائے تو مچھروں سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ یہ چیز ہے لونگ کا تیل!

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مچھروں کے خاتمے کا آسان ترین حل یہ ہے کہ ان کے لاروے ہی مار دی جائیں۔ اس کے لیے لونگ کے تیل کو بہت محفوظ پایا گیا ہے۔

مچھر مارنے والی عام ادویات کے نقصانات بھی ہیں، کیونکہ یہ کیڑے مار دوائیں ہوتی ہیں کہ جو قدرتی ماحول کے لیے نقصان دہ بھی ہوتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادویات پانی، مٹی اور انسانی خوراک میں شامل ہو جاتی ہیں اور انسانوں کے جسم میں داخل ہو کر بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

لیکن لونگ کا تیل ایسا ہے کہ مچھروں میں اس کے خلاف مزاحمت بھی کم ہے اور اس کے ذریعے مچھروں کو خطرناک روپ اختیار کرنے سے پہلے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔

حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق کے بعد سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ لونگ کے تیل کو دیگر synergists کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جائے، مثلاً triphenylphosphate، diethyl maleate اور piperonyl butoxide کے ساتھ تو اس سے لونگ کے تیل کے اثرات میں نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق ان تجربات میں مچھروں میں مدافعت پیدا ہونے کا عمل بھی بہت سست تھا۔ اس حوالے سے خاص طور پر piperonyl butoxide کی افادیت بہت زیادہ دیکھی گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دنیا کے قیمتی ہیروں میں سے ایک، 4.8 کروڑ ڈالرز میں نیلامی متوقع

خلیج فارس کے نیچے سرنگ بنانے کا عظیم منصوبہ