میں

بھارت کا نیا ہتھیار، پاکستان ایس-400 کا توڑ کیسے کرے گا؟

آج سے کوئی تین سال پہلے بھارت نے بالاکوٹ میں ایک ایڈونچر کیا تھا، لیکن ناکامی کا منہ دیکھا اور دُم دبا کر بھاگ نکلا۔ پاکستان کی زبردست جوابی کار روائی کی سے بھارت کو دنیا بھر میں ذلّت کا سامنا کرنا پڑا، اُس کا ایک جہاز تباہ ہوا، پائلٹ قیدی بن گیا، ایک ہیلی کاپٹر تو خود ہی مار گرایا، کئی فوجی مارے گئے اور ان سب ناکامیوں کے باوجود بھارت سمجھتا ہے کہ یہ سب اِس لیے ہوا کیونکہ اس کے بعد فوجی ساز و سامان اچھے معیار کا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ منہ کی کھانے کے بعد اس نے ایک بڑی "خریداری مہم” شروع کر دی۔ سب سے پہلے تو فرانس سے رافال لڑاکا طیارے خریدے اور اب روس سے جدید ترین میزائل ڈیفنس سسٹم لے رہا ہے، جس کا نام ہے S-400۔ بھارت کو اس سسٹم کی ڈلیوری شروع ہو چکی ہے اور اندازہ ہے کہ یہ اپریل 2022ء تک اپنے کام کا آغاز بھی کر دے گا۔

ایس-400

لیکن یہ S-400 ہے کیا؟ کیا کام کرتا ہے اور اس کا توڑ کرنے کے لیے پاکستان کون سے اقدامات اٹھا رہا ہے؟ اس بارے میں آج بات کریں گے۔

تو چلتے ہیں S-400 کی جانب، روس تو دعویٰ کرتا ہے کہ یہ دنیا کا بہترین میزائل ڈیفنس سسٹم ہے۔ یہ دشمن کے لڑاکا طیاروں کو ہی نہیں بلکہ آنے والے بیلسٹک اور کروز میزائلوں کو بھی فضا ہی میں نشانہ بنا کر ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کام کے لیے یہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے مختلف میزائل استعمال کرتا ہے، جن کی رینج 40 سے 400 کلومیٹرز تک ہے۔ پھر اسے ایک سے دوسری جگہ پر پہنچانا بھی آسان ہے اور کسی نئی جگہ پر لگانے کے بعد اسے صرف پانچ منٹ آپریشنل بھی کیا جا سکتا ہے۔

اگر ‏S-400 کی رینج دیکھیں تو یہ بات کافی پریشان کُن لگتی ہے کیونکہ اگر یہ 400 کلومیٹرز تک مار کر سکتا ہے تو پاک فضائیہ کے کئی طیارے اس کی زد میں آ سکتے ہیں۔

بھارت کے دعوے

جس طرح رافال طیاروں کے حوالے سے بہت بلند و بانگ دعوے کیے گئے، بالکل ویسے ہی بھارت S-400 پر بھی زمین آسمان کے قلابے ملا رہا ہے۔ یہ تک کہا جا رہا ہے کہ اس سے پاکستان کی نیوکلیئر ڈیٹرنس ختم ہو جائے گی اور بھارت پاک فضائیہ کے جہازوں کو پاکستان کی فضائی حدود میں ہی نشانہ بنا سکتا ہے۔

غیر جانب دار ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت ظاہر تو یہی کرے گا کہ وہ S-400 کا استعمال پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لیے کرے گا، لیکن اُن کے خیال میں در حقیقت یہ میزائل ڈیفنس سسٹم اہم اور حساس مقامات کی حفاظت کے لیے استعمال کیا جائے گا اور بھارت پاک فضائیہ کو پاکستان ہی کی فضائی حدود میں روکنے کی بے وقوفانہ کوشش نہیں کرے گا۔

پھر بیلسٹک اور کروز میزائلوں کے خلاف S-400 کی صلاحیت اور قابلیت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ فی الحال یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ حقیقی جنگ میں کتنا کارگر ہوگا کیونکہ کسی بھی آنے والے میزائل کو بالکل ٹھیک نشانہ لگانے کا انحصار صرف رینج پر نہیں ہوتا، دوسرے بہت سے عوامل بھی ہیں۔

پاکستان کے جوابی اقدامات

لیکن اس کے باوجود یہ بات تو طے ہے کہ S-400 ایک بڑا خطرہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے اس سے نمٹنے کے لیے اقدامات کافی پہلے ہی اٹھانا شروع کر دیے تھے۔ جس کی ایک مثال پاکستان کا 150 کلومیٹرز کی رینج رکھنے والا فتح میزائل ہے۔ یہ ایک ملٹی لانچ راکٹ سسٹم ہے جو S-400 کو ہلا کر رکھ دے گا۔ پاکستان نے اگست 2021ء اس کا تجربہ کر لیا تھا جب بھارت کو S-400 کی کوئی بیٹری ڈلیور تک نہیں ہوئی تھی۔

پھر الیکٹرانک وار فیئر کے ذریعے بھی S-400 کی صلاحیت اور قابلیت کو روکا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے فروری 2019ء میں بھارت کے خلاف اپنی الیکٹرانک وارفیئر صلاحیتیں اور برتری ثابت کر دی تھی اور پچھلے تین سالوں میں مزید بہتری بھی کی ہے۔

اس کے علاوہ مزید عملی اقدامات دیکھیں تو اس میں ایک اسٹیلتھ ڈرون بھی شامل ہے۔ دفاعی نمائش آئیڈیاز 2018ء میں پاکستان نے ایک اسٹیلتھ ڈرون ZF-1 کا تصوّر پیش کیا تھا۔ اس منصوبے کے بارے میں ابھی تو کچھ نہیں معلوم کہ یہ کس حد تک مکمل ہو چکا ہے اور کتنا کارگر ہے، لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ اس پر بہت رازداری کے ساتھ کام جاری ہے۔ یہ بن گیا تو سمجھیں S-400 کی کہانی ختم!

ویسے پاکستان خود بھی چین سے میزائل ڈیفنس سسٹم حاصل کر چکا ہے جو HQ-9P کہلاتا ہے۔ یہ بھی ایک زبردست میزائل ڈیفنس سسٹم ہے جو 250 کلومیٹرز تک کی رینج رکھتا ہے۔ یہ اکتوبر 2021ء میں پاک فوج کے حوالے کیا گیا تھا۔

چین کا میزائل ڈیفنس سسٹم HQ-9، جو پاکستان نے بھی خریدا ہے

پاکستان کے بہت قریبی دوستوں چین اور ترکی کے پاس بھی S-400 ہے۔ اس لیے پاکستان اس کی خوبیوں، خامیوں اور کمزوریوں کا پتہ چلا سکتا ہے اور اس کے مطابق اپنی دفاعی صلاحیت کو بہتر بنا سکتا ہے۔

پاکستان فضائی برتری و بہتری کے راستے پر

پاکستان اپنی فضائی صلاحیت میں اضافے کے لیے بھی کافی کام کر رہا ہے۔ مثلاً رافال کا توڑ کرنے کے لیے جہاں چین کے جدید ترین J-10C طیاروں کی خریداری کا فیصلہ کیا گیا، وہیں 50 عدد JF-17 بلاک III طیاروں کی جلد شمولیت بھی متوقع ہے۔

جے ایف-17 کا جدید بلاک III ورژن

لیکن S-400 کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہ تو اسٹیلتھ طیاروں کا بھی پتہ چلا لیتا ہے اور عام طیاروں کو تو 400 کلومیٹرز دُوری تک نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ تو اتنا زیادہ فاصلہ ہے کہ کسی بھی جہاز کو پاکستان کی فضائی حدود کے اندر تک نشانہ بنا جا سکتا ہے۔

‏S-400 کا اصل قاتل

یہاں آتا ہے S-400 کا اصل قاتل، ایک ہائپر سونک میزائل جس کا نام ہے DF-17۔ امکان ہے کہ چین یہ میزائل پاکستان کو دے گا تاکہ S-400 کی شکل میں موجود خطرے کا مکمل توڑ ہو سکے۔

ہائپر سونک میزائل آواز کی رفتار سے پانچ گُنا زیادہ تیزی سے پرواز کرتے ہیں اور کوئی بھی ریڈار نہ انہیں ٹریک کر سکتا ہے اور نہ ہی زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل انہیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔ یہ سمجھ لیں کہ یہ نہلے پہ دہلا ہے!

ہائپر سونک میزائل کو ایک بیلسٹک میزائل کے اوپر لگایا جاتا ہے جو اسے زمین کے بالائی کرۂ ہوائی یعنی upper atmosphere تک لے جاتا ہے، جہاں سے ہائپر سونک میزائل لانچ کر دیا جاتا ہے۔ جو ایک شاہین کی طرح اپنے ہدف کی جانب لپکتا ہے، اتنی رفتار سے کہ شکار کو پر مارنے کا موقع بھی نہیں ملتا۔ DF-17 کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کی رینج تقریباً 2,500 کلومیٹرز ہے اور یہ آواز سے پانچ سے 10 گُنا زیادہ تیزی سے اپنے ہدف کی جانب جاتا ہے۔ یعنی یہ میزائل بھارت کے S-400 میزائل ڈیفنس سسٹم کی موت ہوگا۔

ویسے پاکستان چین سے J-31 اسٹیلتھ طیارے بھی خرید سکتا ہے، کیونکہ S-400 کی اسٹیلتھ طیاروں کا پتہ چلانے کی صلاحیت بہت کمزور ہے۔

چین کا جدید جے-31 اسٹیلتھ طیارہ

بہرحال، یہ بات طے ہے کہ بھارت کے اقدامات سے خطے میں طاقت کا توازن بُری طرح بگڑ رہا ہے اور اسلحے کی ایسی دوڑ شروع ہو رہی ہے، جو برصغیر کے عوام کے نہیں، بلکہ عالمی طاقتوں کے مفاد میں ہے۔ وہ عالمی طاقتیں جو پاکستان اور بھارت کو جدید اور مہنگے ترین ہتھیار فروخت کر کے اپنی جیبیں گرم کرنا چاہتی ہیں۔

خیر، دفاع تو ایسا شعبہ ہے کہ جس میں کشمکش ہر وقت چلتی رہتی ہے۔ کبھی ایک حریف برتری حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی دوسرا اس کا مقابلہ کرنے یا اس سے بھی آگے بڑھ جانے کے لیے پر تولتا ہے۔ حق اور باطل کی یہ جدوجہد اور کشمکش تو قیامت تک جاری رہے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

علامہ اقبال کی دو قبریں، ایک پاکستان، دوسری کہاں؟

وہ شہر جو کبھی دارالحکومت تھے