میں

کرسٹوفر کولمبس اور امریکا کی دریافت، تاریخ کا ایک بھیانک پہلو

گزشتہ 500 سالوں میں تاریخ کا دھارا پلٹ دینے والا اگر  کوئی ایک لمحہ ہو سکتا ہے تو وہ بلاشبہ امریکا کی "دریافت” ہے۔ اطالوی جہاز راں کرسٹوفر کولمبس نے 1492ء میں اُس سرزمین کو "دریافت” کیا جسے اب بر اعظم شمالی و جنوبی امریکا کہا جاتا ہے۔ اس "دریافت” کی بدولت مغرب کو دنیا میں وہ برتری حاصل ہوئی، جس کی وجہ سے آج تک دنیا کی قیادت اس کے ہاتھ میں ہے۔

یہ وہ تاریخ ہے جو عام طور پر دنیا میں پڑھی اور جانی جاتی ہے۔ امریکا تو چھوڑیں پاکستان کی نصابی کتابوں میں بھی یہی لکھا ہوا ہے کہ کولمبس نے امریکا دریافت کیا اور وہ دنیا کے عظیم مہم جو جہاز رانوں میں سے ایک تھا۔ لیکن کیا حقیقتاً ایسا ہی ہے؟ پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی امریکا دریافت ہوا تھا جبکہ وہاں  پہلے سے لاکھوں لوگ بستے تھے؟ پھر کولمبس کا "نئی دنیا” میں طرزِ عمل کیا تھا اور ایسے ہی کئی سوالات بھی ابھرتے  ہیں تو آئیے ایک، ایک کر کے ان سوالوں کے جوابات کا کھوج لگاتے ہیں۔

کولمبس کے مقاصد

کولمبس کا اصل مقصد تھا ہندوستان کو دریافت کرنا۔ ہندوستان اُس زمانے میں  بھی سونے کی چڑیا سمجھا جاتا تھا اور  یہاں کے مسالے یورپ جیسے سرد بر اعظم کی محدود اشیائے خورد ونوش کو محفوظ کرنے کے کام آتے ہیں یعنی ہندوستان کے ساتھ رابطہ ان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔ لیکن 1453ء میں قسطنطنیہ کی فتح اور مشرقی یورپ، شمالی افریقہ اور بحیرۂ روم میں سلطنتِ عثمانیہ کے غلبے کے بعد یورپ کے لیے نئے مسائل کھڑے ہو گئے تھے۔ خاص طور پر 1492ء میں سقوطِ غرناطہ اور اس کے بعد مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے بعد تو ان کے لیے مشرق کا رخ کرنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔

تبھی ہندوستان کے لیے ایک نیا راستہ ڈھونڈنے کی  اشد ضرورت پیدا ہوئی اور یہ کام کرنے والے ابتدائی افراد میں سے ایک کرسٹوفر کولمبس تھا۔ وہ جانتا تھا کہ دنیا گول ہے اور کوئی مستقل مغرب کی جانب سفر کرتا رہے تو بالآخر گھوم کر مشرق کی طرف آ جائے گا۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ بحرِ ظلمات یعنی بحرِ اوقیانوس کے پار ایک ایسی دنیا بھی موجود ہے جس کے بارے میں ابھی تک یورپ کو علم نہیں ہے۔

ایک "دریافت”

اس نے سقوطِ غرناطہ کے بعد اسپین و پرتگال پر حکمران بن جانے والے بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ایزابیلا کے تعاون سے اس مہم کا آغاز کیا اور پھر اکتوبر 1492ء میں اس علاقے میں پہنچا، جسے ہم آجکل ویسٹ انڈیز کہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ ایک نئی دنیا دریافت کر چکا ہے بلکہ ہندوستان کی نسبت سے مقامی باشندوں کو بھی ریڈ انڈینز یعنی سرخ ہندی قرار دیا اور یہ بے وقوفانہ نام آج تک مستعمل ہے۔

خود سوچیے کہ وہ علاقہ کیسے دریافت ہو سکتا ہے کہ جہاں ہزاروں سال سے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ آباد تھے، انہیں اندازہ نہیں تھا کہ بحرِ ظلمات کے پار سے ایک عذاب ان  پر نازل ہونے والا ہے۔ ہاں! کیونکہ یورپ اس "نئی دنیا” کے بارے میں نہیں جانتا تھا اس لیے یورپ مرکزی (یورو-سینٹرک) تاریخ میں یہ ایک دریافت کہلائی اور پھر اس کے دنیا بھر کے غلبے کے ساتھ اس بات کو حقیقت سمجھ کر تسلیم کر لیا گیا۔

بہرحال، امریکا کی "دریافت” کےبعد جو ہوا وہ تاریخ کا ایسا بھیانک باب ہے، جس پر بہت کم بات کی جاتی ہے۔ کولمبس نے جس علاقے میں سب سے پہلے قدم رکھا وہ ہسپانیولا کا جزیرہ تھا یعنی وہ علاقہ جہاں آجکل ڈومینکن جمہوریہ اور ہیٹی واقع ہیں۔ اس "دریافت” کی مقامی لوگوں کو بہت بڑی قیمت چکانا پڑی جبکہ ان کا کوئی قصور نہیں تھا لیکن ان کا بڑے پیمانے پر قتلِ عام ہوا، انہیں غلام بنایا گیا، ان کی عورتیں اٹھا لی گئیں، نسلیں بدل ڈالی گئیں۔ ایسا ظلم، اتنا بد ترین استحصال شاید ہی کسی دوسرے نو آبادیاتی علاقے کا ہوا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پر بہت کم ہی بات کی گئی ہے۔

کولمبس کے بڑے جرائم

کولمبس تاریخ کے دو بڑے جرائم کا مرتکب ہوا، جو اس کی اس "دریافت” کا براہِ راست نتیجہ بنے، ایک امریکا میں مقامی باشندوں کا قتلِ عام  اور دوسرا بحرِ ظلمات کے پار غلاموں کی تجارت۔

چند کتب نے ان بھیانک جرائم سے پردہ بھی اٹھایا ہے، جن میں سے ایک مشہور کتاب Columbus: The Four Voyages ہے۔ یہ کتاب لارنس برگرین نے لکھی ہے۔ جس میں کئی واقعات کا ذکر ہے مثلاً ایک جگہ لکھا ہے کہ مقامی آبادی کو اطاعت پر مجبور کرنے اور مزاحمت سے روکنے کے لیے کولمبس ان کے قیدیوں کے ساتھ بہت بہیمانہ ظلم کرتا تھا۔ مثلاً ایک مرتبہ تین مقامی لوگوں کا سر چوراہے پر قلم کیا گیا تھا۔ ایک بار چند مقامی لوگوں کو پکڑنے کے بعد پورے گاؤں کے سامنے ان کے کان کاٹے گئے تھے، تاکہ لوگ عبرت پکڑیں اور ان کے خلاف مزاحمت سے باز رہیں۔

ایک مرتبہ کولمبس نے 1,500 مرد و خواتین کو پکڑنے کا حکم دیا، جن میں سے 400 کو چھوڑ دیا گیا،  500 کو اسپین بھیجا گیا اور باقی 600 یہاں آباد ہونے والے ہسپانویوں نے غلام بنا لیے۔ اسپین جانے والے 500 میں سے 200 افراد سفر کے دوران ہی دم توڑ گئے اور ان کی لاشیں سمندر میں پھینک دیا گیا

اس کے علاوہ 14 سال سے زیادہ عمر کے ہر مقامی ریڈ انڈین کو کولمبس کا حکم تھا کہ وہ انہیں بھاری مقدار میں سونا دے، ورنہ موت کے لیے تیار ہو جائے۔ ہسپانیولا کے علاقے میں ویسے ہی سونا نہیں پایا جاتا، نتیجہ بڑے پیمانے پر اموات کی صورت میں نکلا۔

اس پوری صورت حال سے مقامی باشندے اتنے دل گرفتہ ہوئے کہ کتاب میں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے خوراک کے گودام تک تباہ کر دیے تاکہ حملہ آوروں کو کچھ کھانے کو نہ مل سکے۔ کئی ایسے تھے جنہوں نے پہاڑی چٹانوں سے کود کر یا زہر کھا کر خود کشی کرلی۔  ہسپانوی ظالموں کی ناجائز فرمائشوں کو پورا کرنے کے دباؤ کی وجہ سے ان کے لیے اپنے کھیتوں میں کام کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔ اس لیے حالات سے تنگ آ کر بڑے پیمانے پر خود کشیاں کی گئیں۔

برگرین لکھتے ہیں کہ 500 سال پہلے کی مردم شماری کے بارے میں یقین سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن 1492ء میں ہسپانیولا کی آبادی تقریباً 3 لاکھ تھی۔  صرف 1494ء سے 1496ء کے دوران ایک لاکھ مر گئے، جن میں سے تقریباً نصف نے اجتماعی خود کشیوں میں اپنی جان خود لی۔ 1508ء میں یہ آبادی صرف 60 ہزار رہ گئی تھی  1548ء تک صرف 500  مقامی باشندے بچے تھے۔

آج کا کولمبس

لیکن ان تمام بھیانک جرائم کے باوجود کولمبس کا نام آج ایک ہیرو کے طور پر لیا جاتا ہے، امریکا میں کولمبس کا نام ہر جگہ ہے، شہروں، قصبوں، گاؤں، دیہاتوں کے نام، سڑکیں اور بہت کچھ کولمبس سے موسوم ہے۔

‏1892ء میں جب امریکا کی دریافت کے 400 سال مکمل ہوئے تھے تو  پہلی بار امریکا میں کولمبس کا دن منایا گیا تھا۔  1960ء کی دہائی میں امریکا میں نسل پرستی کے خلاف سیاہ فاموں کی جدوجہد اپنے عروج پر تھی اور ان کے یکساں حقوق کے مطالبات کے دوران ہی امریکا کے اصل مقامی یعنی ریڈ انڈین باشندوں کے مطالبات بھی سامنے آئے۔

بالآخر آہستہ آہستہ کولمبس کے دوسرے، یعنی اصل چہرے، پر بھی بات ہونے لگی اور محققین نے اس پر قلم چلانا شروع کیے اور حقیقت عوام کے سامنے لائے۔ آج عالم یہ ہے کہ امریکا کے کئی شہر ایسے ہیں جنہوں نے کولمبس کا دن منانا بند کر دیا ہے، جو ہر سال 12 اکتوبر کو منایا جاتا تھا لیکن اب بھی دنیا اسے ایک بہادر مہم جُو سمجھتی ہے، جس نے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا لیکن اب حقائق سے پردے اٹھ رہے ہیں۔

مفروضے اور حقائق

حقیقت یہ ہے کہ کولمبس نے کبھی شمالی امریکا کی سرزمین پر قدم تک نہیں رکھا تھا۔ اس نے جو چار سفر کیے وہ ویسٹ انڈین جزائر، وسطی امریکا اور جنوبی امریکا کے کچھ علاقوں تک محدود رہے لیکن وہ اس ملک میں کبھی نہیں گیا جہاں اُس کے نام پر آج بھی 50 سے زیادہ شہر، قصبے اور گاؤں ہیں، یعنی امریکا میں۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کولمبس سے پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ دنیا گول ہے جبکہ  اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ قدیم یونانی ریاضی دان بھی جانتے تھے کہ زمین گول ہے۔

حیران کن طور پر کئی نصابی کتابوں میں یہ تک لکھا ہے کہ مقامی آبادی کے ساتھ اس کا تعلق بہت اچھا تھا بلکہ ریڈ انڈینز نے اس کا بھرپور استقبال کیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی "دریافت” کے بعد دہائیوں بلکہ صدیوں تک مقامی آبادی کا استحصال ہوتا رہا۔

شاید اسی لیے علامہ اقبال نے اپنی ایک نظم "دوزخی کی مناجات” کا اختتام اس شعر پر کیا تھا کہ:

اللہ! ترا شکر کہ یہ خطہ پُر سوز

سوداگرِ یورپ کی غلامی سے ہے آزاد

یعنی دوزخی کہہ رہا ہے کہ وہ جہنم میں بھی اس بات پر شکر کر رہا ہے کہ یہ علاقہ یورپ کے سوداگروں کی غلامی سے تو آزاد ہے۔ یعنی جہنم یورپ کے مقبوضہ علاقوں سے بہتر جگہ ہے۔

One Comment

Leave a Reply

One Ping

  1. Pingback:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

پی ٹی آئی کے”ہوم گراؤنڈ” پر بھی غیرمقبولیت میں مسلسل اضافہ، تازہ سروے کے حیران کن انکشافات

سوشل میڈیا کے دور میں بچوں کی تربیت کیسے کریں؟