میں

سوشل میڈیا کے دور میں بچوں کی تربیت کیسے کریں؟

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ میڈیا کی یہ جدید قسم ہماری زندگیوں میں اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ اب اس سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ اس کے جہاں ہزاروں فائدے ہیں تو وہیں کئی نقصانات بھی ہیں۔ بچے بھی بڑوں کی طرح سوشل میڈیا کی خرابیوں کا سامنا کر رہے ہیں اور انہیں اس کا اندازہ تک نہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ یہاں والدین کا کردار بہت اہم ہو جاتا ہے کہ وہ عام اخلاقیات کی طرح سوشل میڈیا اخلاقیات کے حوالے سے بھی بچوں کی تربیت کریں۔ عام طور پر بچے کچھ بھی پوسٹ کرنے سے پہلے بالکل نہیں سوچتے۔ انہیں کوئی وڈیو یا تصویر مزاحیہ لگ جائے تو وہ اسے شیئر کرنے سے نہیں چوکتے۔ چند سیکنڈوں میں یہ چیز نہ صرف دوست، احباب ، رشتہ داروں بلکہ دنیا بھر میں نہ جاننے والوں تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ اکثر و بیشتر اس میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھار کوئی معمولی سی غلطی کا خمیازہ بچے کو بھگتنا پڑ سکتا ہے اور اسے بُری طرح متاثر کر سکتا ہے۔ اس لیے احتیاط لازم ہے اور یہ بھی والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ جدید دور کے تقاضوں کو سمجھیں اور انہیں اپنی تربیت کا حصہ بھی بنائیں۔

سوشل میڈیا استعمال کرنے والے بچوں کو چار باتیں لازماً سکھائیں:

آپ کی پوسٹ کون پڑھے گا؟

سب سے پہلے تو بچے سے یہ سوال کریں کہ وہ جو کچھ آپ پوسٹ کر رہے ہیں اسے کون کون پڑھے گا؟ ہو سکتا ہے بچے کا جواب یہ ہے کہ جو اس کے فرینڈز یا فالوورز ہیں، وہی پڑھیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر پرائیویسی نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور جو کچھ وہ شیئر کرتے ہیں وہ در حقیقت سبھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس لیے یہ امکان بھی رہتا ہے کہ ان کی کوئی پوسٹ وائرل بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے یہ بات ان کے علم میں رہنی چاہیے کہ ان کی پوسٹ کو دوست، اساتذہ، بہن بھائی، والدین، بزرگ اور عام لوگ بھی کہ جن سے شاید زندگی میں ان کی کبھی کوئی ملاقات نہ ہو، سب دیکھیں گے۔ سوشل میڈیا پر کچھ بھی شیئر کرنے سے پہلے ان کے ذہن میں ایک لمحے کے لیے اس بات کا خیال آئے گا تو ان میں اپنی پوسٹ کے حوالے سے احساسِ ذمہ داری پیدا ہوگا۔

دوسروں کا احساس

بچوں کو سمجھائیں کہ جو لوگ آپ کی پوسٹ کو پڑھیں گے، دیکھیں گے یا اس کے بارے میں سنیں گے، ان کو ذہن میں رکھتے ہوئے پوسٹ بھیجیں۔ خود سے چند سوالات کریں مثلاً کیا یہ پوسٹ کسی کو شرمندہ کر سکتی ہے؟ کیا یہ کسی کے احساسات کو ٹھیس پہنچائے گی؟ یہ کسی کو اذیت دے گی؟ اگر ایسا ہے تو پھر اسے پوسٹ مت کریں۔

ایک احتیاط

ہم آجکل ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں دوسروں کے بارے میں فوراً کوئی رائے قائم کر لی جاتی ہے۔ جب ہمارے بچے کچھ پوسٹ کرتے ہیں تو وہ پوسٹ ان کی ڈجیٹل نمائندہ ہوتی ہے۔ انہیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی پوسٹس کی بنیاد پر ان کے بارے میں رائے قائم کی جاتی ہے۔ چاہے وہ خود کو ظاہر نہ کریں، لیکن پھر بھی آپ کی پوسٹس کی بنیاد پر اندازے لگائے جاتے ہیں کہ آپ کیسے دِکھتے ہوں گے، کیسے کپڑے پہنتے ہوں گے۔ پھر سیاسی و سماجی معاملات پر آپ کی جو رائے ہے، اس کی بنیاد پر بھی آپ کو جج کیا جاتا ہے۔ اس لیے کچھ بھی پوسٹ کرتے ہوئے سوچیں کہ اس کی بنیاد پر لوگ آپ کے بارے میں کیا رائے قائم کر سکتے ہیں؟

آپ کی پوسٹ کس کی نمائندگی کرتی ہے؟

پوسٹ صرف بچے ہی کی نمائندگی نہیں کرتی کہ جس کا اکاؤنٹ ہے بلکہ اس سے منسلک ہر فرد کی بھی نمائندہ ہے۔ مثلاً جب بچہ سوشل میڈیا پر کچھ پوسٹ کرتا ہے تو یہ اس کے والدین کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ اس کے اسکول اور خاندان کے بارے میں بھی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ آپ نے عام دیکھا ہوگا کہ کسی بچے کی حرکت کی بنیاد پر فوراً کہا جاتا ہے کہ والدین نے اس کی کیا تربیت کی ہے؟ یا سرے سے کوئی تربیت ہی نہیں کی۔ اس لیے بچے کے ذہن میں یہ احساس اجاگر کریں کہ اس کی پوسٹس سے والدین، خاندان اور دیگر متعلقہ لوگ متاثر نہ ہوں بلکہ وہ ان کی عزت افزائی کا باعث بنے۔

تو بچوں کو کیا کرنا چاہیے؟

بچوں کو پوسٹ کا بٹن دبانے سے پہلے ایک لمحے خود سے یہ چاروں سوالات پوچھنے چاہئیں، یعنی ہماری پوسٹ کون دیکھے گا؟ کیا یہ مناسب ہے؟ اس کی بنیاد پر میرے اور میرے گھر والوں کے بارے میں کیا رائے قائم ہو سکتی ہے؟ اگر انہیں سمجھ نہ آئے تو جس چیز پر شک پیدا ہو، اسے تو ویسے ہی چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ تربیت دینا والدین کی ذمہ داری ہے اور اگر وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھانے میں کامیاب ہو گئے تو نہ صرف بچپن بلکہ اس کے بعد بھی یہ عادتیں بچوں میں اچھے اخلاق پیدا کریں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

کرسٹوفر کولمبس اور امریکا کی دریافت، تاریخ کا ایک بھیانک پہلو

نواز شریف کا دل ٹوٹ گیا! یہ ٹاکوٹسوبو سنڈروم کون سی بلا ہے؟