میں

پی ٹی آئی کے”ہوم گراؤنڈ” پر بھی غیرمقبولیت میں مسلسل اضافہ، تازہ سروے کے حیران کن انکشافات

پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کی مقبولیت میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ یہاں تک کہ اپنے گڑھ سمجھے جانے والے صوبے خیبر پختونخوا میں بھی عوام حکومت کے اقدامات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے تنگ نظر آتے ہیں۔

معروف ادارے پلس کنسلٹنٹ کا سہ ماہی کارکردگی سروے دراصل حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے عوامی تاثر اور رائے پر مبنی ہوتا ہے۔ اس میں ہر تین ماہ بعد سیاسی صورت حال پر ڈیٹا اکھٹا کیا جاتا ہے، جس میں واضح اور کھرے سوالات سے ایک بھرپور سروے پیش کیا جاتا ہے۔

تازہ ترین سروے 13 سے 21 جنوری 2022ء کے دوران کیا گیا، جس میں 2,022 افراد شامل تھے۔ اس میں دیہی علاقوں کے ساتھ تمام صوبوں کے 60 شہروں کا احاطہ کیا گیا ہے اور ملک کے ثقافتی تنوّع کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے۔ تحقیق کے مطابق سامنے آنے والے نتائج کو صوبوں کی حقیقی دیہی اور شہری آبادی کے مطابق جانچا گیا ہے۔

سروے مجموعی طور پر ملک میں انتہائی مایوس کُن صورت حال کی عکاسی کر رہا ہے۔ مثلاً اچھی خبروں کے حوالے سے ایک سوال پر 62 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں اِس وقت کوئی اچھی خبر موجود نہیں ہے جبکہ 16 فیصد نے کہا کہ انہیں معلوم نہیں۔ سب سے زیادہ جس اچھی خبر کا لوگوں نے حوالہ دیا وہ کرکٹ میں کامیابیاں تھیں اور ایسے لوگوں کی شرح بھی صرف 6 فیصد تھی۔

اس کے مقابلے میں بُری خبروں میں 25 فیصد نے مہنگائی، 24 فیصد نے اسکولوں کی بندش سے بچوں کی پڑھائی کو ہونے والے نقصان، 19 فیصد نے کرونا وائرس، 9 فیصد نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے، 6 فیصد نے سانحہ مری اور 5، 5 فیصد افراد نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور مجموعی صورت حال ہی کو خراب قرار دیا۔

سروے میں شامل اس سوال پر کہ حکومت مجموعی طور پر کس سمت میں آگے بڑھ رہی ہے، 69 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ غلط سمت پر گامزن ہے جبکہ 27 فیصد نے درست سمت میں قرار دیا۔

گزشتہ سال جنوری میں 47 فیصد افراد حکومت کو درست سمت میں سمجھتے تھے، یعنی اب ایسے لوگوں کی تعداد میں بہت کمی آ چکی ہے جبکہ 44 فیصد نے حکومت کو غلط راہ پر گامزن سمجھتے تھے لیکن اب مجموعی طور پر عوام میں حکومت سے بد دلی نظر آتی ہے۔

سروے میں شامل 66 فیصد افراد نے حکومت کی سیاسی سمت کو بھی غلط قرار دیا اور 29 فیصد کا کہنا تھا کہ سیاسی لحاظ سے حکومت درست طریقے پر گامزن ہے۔

معاشی لحاظ سے 70 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ حکومت کی سمت درست نہیں ہے جبکہ ٹھیک سمجھنے والوں کی تعداد صرف 26 فیصد ہے۔ ایک سال پہلے ایسے افراد 37 فیصد تھے جبکہ جولائی میں تو 43 فیصد افراد کا ماننا تھا کہ حکومت درست سمت میں گامزن ہے لیکن اب یہ شرح صرف 26 فیصد رہ گئی ہے۔

حکومت کی معاشی کارکردگی کے سوال پر عوامی آرا کو اگر صوبوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پنجاب میں صورت حال بہت خراب نظر آ رہی ہے جہاں 78 فیصد افراد سمجھتے ہیں کہ معاشی لحاظ سے حکومت کی سمت درست نہیں۔ سندھ میں یہ شرح 73 فیصد، خیبر پختونخوا میں 62 فیصد اور بلوچستان میں 60 فیصد ہے۔

معاشی لحاظ سے حکومت کو درست راستے پر سمجھنے والوں کی سب سے زیادہ شرح بلوچستان میں نظر آئی جہاں 39 فیصد افراد کی رائے حکومت کے حق میں تھی۔ خیبر پختونخوا میں ایسے افراد 36 فیصد اور سندھ میں 22 فیصد ہیں حیران کُن طور پر پنجاب میں یہ شرح سب سے کم 16 فیصد نظر آ رہی ہے۔

صرف گزشتہ تین ماہ کی کارکردگی کے حوالے سے سوال پر 39 فیصد افراد نے ملی جلی رائے کا اظہار کیا جبکہ 41 فیصد کے خیال میں یہ اطمینان بخش نہیں ہے۔ سروے میں شامل صرف 18 فیصد لوگ ایسے ہیں جو حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نظر آئے۔

سروے میں انہی تین ماہ کے دوران مہنگائی میں اضافے کے سوال پر 99 فیصد لوگوں کی رائے یہی تھی کہ ملک میں مہنگائی بڑھی ہے اور صرف 1 فیصد کا کہنا تھا کہ اِس میں کمی آئی ہے۔ گزشتہ سال یہ شرح بالترتیب 94 اور 6 فیصد تھی۔

حکومتِ وقت بارہا یہ دعوے کرتی آئی ہے کہ اگلے چند ماہ میں مہنگائی میں کمی آئے گی۔ عوام ان دعووں پر کتنا یقین کرتی ہے؟ اس حوالے سے بھی سروے میں ایک سوال شامل کیا گیا تھا، جس میں 54 فیصد افراد نے کہا کہ وہ حکومت کے وعدوں پر یقین نہیں رکھتے، 28 فیصد کے مطابق انہیں کسی حد تک یقین ہے جبکہ 15 فیصد لوگ ہی ایسے تھے جنہیں سرکاری وعدوں پر یقین ہے۔

سروے میں شامل 80 فیصد افراد نے بے روزگاری کو اِس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جبکہ 61 فیصد افراطِ زر کی بڑھتی ہوئی شرح کو، 31 فیصد بد عنوانی یعنی کرپشن کو، 26 فیصد بجلی اور 16 فیصد گیس کی عدم فراہمی کو بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں۔

سروے میں ایک سوال یہ بھی شامل کیا گیا تھا کہ حکومت اپنے تمام تر مسائل کی ذمہ دار گزشتہ حکومتوں کی کارکردگی اور ان کے لیے گئے قرضوں کو قرار دیتی ہے جبکہ حزبِ اختلاف موجودہ حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کو موردِ الزام ٹھیراتی ہے، اس حوالے سے عوام کس کی رائے کے حق میں ہیں؟ تو سروے بتاتا ہے کہ 65 فیصد افراد کے خیال میں قصور موجودہ حکومت کی پالیسیوں کا ہے اور صرف 29 فیصد ایسے تھے جنہوں نے موجودہ حالات کو پچھلی حکومت کے اقدامات کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

ذاتی نوعیت کے سوالات میں یہ سوال بھی تھا کہ موجودہ آمدنی میں آپ کے گھریلو اخراجات پورے ہو پاتے ہیں یا نہیں؟ 72 فیصد افراد نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کر پاتے جبکہ 28 فیصد ہی ایسے تھے جو بچت کر پاتے ہیں۔ اخراجات پورے کرنے کے لیے 45 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ وہ پارٹ ٹائم یعنی جُز وقتی کام بی کرتے ہیں جبکہ 28 فیصد نے کہا کہ انہیں قرضہ لینا پڑ رہا ہے۔

طبقاتی لحاظ سے دیکھا جائے تو نچلے طبقے کے 72 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ماہانہ اخراجات آمدنی میں پورے نہیں کر پاتے اور باقی ماندہ 28 فیصد ایسے ہیں جنہوں نے کہا کہ ان کے اخراجات پورے ہو جاتے ہیں۔ مڈل کلاس میں یہ شرح سب سے زیادہ نظر آئی جہاں 78 فیصد افراد کے اخراجات ان کی آمدنی سے بڑھ گئے ہیں۔ لوئر مڈل کلاس میں 75، اپر مڈل کلاس میں 64 اور اپر کلاس میں 48 فیصد افراد ایسے ہیں جن کے ماہانہ اخراجات ان کی آمدنی سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔

مختلف صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر عوامی آرا بھی پلس گلوبل کے سروے کا حصہ تھیں۔ اس میں پنجاب میں 55 فیصد افراد حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نظر نہیں آتے اور 34 فیصد کی رائے ملی جُلی رہی۔ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن افراد کی تعداد صرف 9 فیصد نظر آتی ہے۔

سندھ میں 18 فیصد کارکردگی سے مطمئن، 42 فیصد ناخوش اور 39 فیصد ملی جلی رائے رکھتے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں 55 فیصد غیر مطمئن، 24 فیصد مطمئن اور 20 فیصد ملی جلی رائے رکھنے والے ہیں جبکہ بلوچستان میں 55 فیصد غیر مطمئن، 35 فیصد ملی جلی رائے رکھنے والے 10 فیصد مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔

مختلف سیاسی معاملات پر بھی کئی سوالات سروے کا حصہ تھے، جن میں سب سے دلچسپ صدارتی نظام کی حالیہ بحث کے حوالے سے تھا۔ اس میں صرف 26 فیصد لوگوں کی رائے صدارتی نظام کے حق میں نظر آئی جبکہ 48 فیصد نے پارلیمانی نظام کو درست قرار دیا۔ 26 فیصد نے اس حوالے سے اپنی لا علمی کا اظہار کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

پاکستان سپر لیگ، لاہور قلندرز کے چند سنسنی خیز میچز

کرسٹوفر کولمبس اور امریکا کی دریافت، تاریخ کا ایک بھیانک پہلو