میں

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل دنیا بھر کے ملکوں میں بدعنوانی کا پتا کیسے چلاتا ہے؟

کرپشن یعنی بد عنوانی سے پاک ممالک کی عالمی فہرست میں پاکستان مزید نیچے چلا گیا ہے۔ معروف عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان اس کے "کرپشن پرسیپشنز انڈیکس” (Corruption Perceptions Index) میں 16 درجے تنزلی کے بعد 140 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ رپورٹ اُس حکومت کے دور میں منظرِ عام پر آئی ہے جو بد عنوانی کے خاتمے کے بلند و بانگ دعووں کے ساتھ برسرِ اقتدار آئی تھی۔ لیکن ساڑھے تین سالوں میں بات زبانی کلامی دعووں سے آگے تو نہیں بڑھ سکی، بلکہ اُلٹا کرپشن ایک مزید بھیانک رُوپ سامنے کھڑا ہے۔

کرپشن پرسیپشن کا تعین کیسے ہوتا ہے؟

180 ممالک میں سب سے پہلے نمبر پر آنے والے ملک کو سب سے شفاف قراردیا جاتا ہے۔ جبکہ نمبرز میں اضافے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کرپشن میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگر کسی ملک کی رینکنگ 180 ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سب سے کرپٹ ترین ملک ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اسکور کا تعین بھی کرتا ہے۔ جسے CPI کہتے ہیں۔ جن ممالک کے CPI نمبرز زیادہ ہوتے ہیں، کم کرپٹ ممالک میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ جس ملک کے نمبر جتنے زیادہ ہوں گے، وہ اتنا ہی کرپشن سے پاک ملک تصور ہوتا ہے۔

پاکستان اور کرپشن کی حالیہ تاریخ

حیران کن بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں پاکستان کی درجہ بندی کو خاص طور پر بہت نقصان پہنچا ہے۔ پرویز مشرف کے دور کے اختتام  پر پاکستان عالمی درجہ بندی میں 138 ویں نمبر پر تھا۔ 2013ء میں جب پیپلز پارٹی کا دورِ حکومت ختم ہوا تو پاکستان 127 ویں پوزیشن پر موجود تھا جبکہ مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں درجہ بندی میں کافی بہتری آئی اور پاکستان 33 کے اسکور کے ساتھ 117 ویں نمبر پر آ گیا۔ لیکن پاکستان تحریکِ انصاف کے دور میں تو 33 کے پاسنگ مارکس بھی چلے گئے۔ 2019ء میں پاکستان 120 ویں نمبر پر پہنچا، 2020ء میں مزید زوال کے ساتھ 124 واں درجہ حاصل کیا اور اب یکدم بہت لمبی اور اُلٹی چھلانگ کے بعد 140 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔


پڑوسی ممالک کا حال

اِس انڈیکس میں پڑوسی ملک بھارت کا اسکور 40 ہے اور وہ 180 ممالک میں 85 ویں نمبر پر ہے جبکہ بنگلہ دیش صرف 26 نمبروں کے ساتھ پاکستان سے بھی پیچھے 147 ویں نمبر پر کھڑا ہے۔ لیکن دونوں ممالک پچھلے سال بھی انہی مقامات پر تھے یعنی ان کی درجہ بندی بہتر نہیں ہوئی تو نیچے بھی نہیں آئی۔ لیکن جب معاملہ کرپشن کا ہو تو کسی بھی ملک کا کسی سے تقابل بنتا نہیں ہے۔ خاص طور پر بد عنوانی کے خاتمے میں پاکستان کی پچھلے چند سال کی کوششوں کو دیکھا جائے تو اپنے گریبان میں جھانکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔


پاکستان کی بھیانک کارکردگی کی وجوہات

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن پرسیپشنز انڈیکس میں پاکستان کی خراب کارکردگی کی دو اہم وجوہات بیان کی ہیں، ایک "قانون کی حکمرانی” نہ ہونا اور دوسرا اس نے "state capture” کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہ اصطلاح گزشتہ دو دہائیوں سے ان ممالک کے لیے استعمال کی جاتی ہے جہاں نجی مفادات ریاست کے فیصلوں پر بہت زیادہ اثر انداز ہوں۔ چھوٹے بد عنوان گروہ سرکاری عہدیداروں پر اپنا اثر و رسوخ ڈال کر اپنی معاشی حیثیت کو استحکام دینے کے لیے حکومتی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوں۔ ماضی قریب میں بلغاریہ، رومانیہ اور جنوبی افریقہ کو اس کی ایک مثال قرار دیا گیا ہے۔ اگر درجہ بندی پر ایک نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ جن ملکوں کا شہری آزادی میں اسکور کم ہے، وہ ویسے ہی نچلے نمبروں پر ہیں۔ ادارے کے مطابق انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور آزادئ اظہارِ رائے کا زوال جمہوریت کی بیخ کنی کرتا ہے اور استبداد جنم لیتا ہے اور بد عنوانی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔


شفاف ترین اور بد ترین ممالک

بد عنوانی سے پاک ممالک میں ڈنمارک، فن لینڈ اور نیوزی لینڈ سب سے آگے ہیں جن کا اسکور 88 ہے جبکہ ناروے، سنگاپور اور سوئیڈن ان سے پیچھے ہیں جن کا اسکور 85 ہے۔ یعنی یہ دنیا میں کرپشن سے پاک ترین ممالک ہیں۔ ان کے مقابلے میں جنوبی سوڈان 11 کے اسکور کے ساتھ دنیا کا سب سے کرپٹ ملک ہے جس کے بعد شام، صومالیہ، وینزویلا اور افغانستان کے نام ہیں۔


ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ہے کیا؟

لیکن ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ہے کیا؟ اسے کون چلاتا ہے؟ اس ادارے کی اپنی ساکھ کیا ہے؟ یہ دنیا بھر کے ملکوں میں بد عنوانی کا کس طرح پتہ چلاتا ہے؟ اور اس کی رپورٹ کے سیاسی طور پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ایسے ذہن میں جنم لے رہے ہوں گے، جو اس حوالے سے زیادہ معلومات نہیں رکھتا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جرمنی میں واقع ایک ادارہ ہے جس کا قیام 1993ء میں عمل میں آیا تھا۔ اسے ورلڈ بینک کے چند سابق ملازمین نے بنایا تھا۔ اس کا ہدف دنیا بھر سے بد عنوانی کا خاتمہ اور کرپشن سے پیدا ہونے والی مجرمانہ سرگرمیوں سے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھانا ہے۔ ادارے کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ ہمارا مشن معاشرے کی تمام شعبوں میں بد عنوانی کا خاتمہ اور شفافیت، احتساب اور راست بازی کا فروغ ہے۔ ہم ایسی دنیا چاہتے ہیں جہاں حکومت، سیاست، کاروبار، سوِل سوسائٹی اور عوام کی روزمرہ زندگی کرپشن سے پاک ہو۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اپنے "گلوبل کرپشن بیرومیٹر” اور "کرپشن پرسیپشنز انڈیکس” کی وجہ سے مشہور ہے اور ان دونوں درجہ بندیوں کو دنیا بھر میں بد عنوانی کا پتہ چلانے کے لیے معیار سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ادارہ خود کہتا ہے کہ یہ ہماری درجہ بندی کا نام گلوبل کرپشن انڈیکس نہیں بلکہ کرپشن پرسیپشنز انڈیکس ہے یعنی کہ اس میں بد عنوانی کا نہیں بلکہ بد عنوانی کے تاثر کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس کے لیے ادارہ مختلف طریقوں سے ڈیٹا حاصل کرتا ہے، جس میں مختلف اداروں کے پول اور دیگر ڈیٹا بھی شامل ہوتا ہے جس کے قابلِ بھروسا ہونے پر بھی سوالیہ نشان تو عائد ہوتا ہے۔ لیکن کیونکہ بات تاثر کی ہے تو بڑی حد تک ادارے کا "پرسیپشن” درست ہی سمجھا جاتا ہے۔


کرپشن پرسیپشنز انڈیکس کے سیاسی اثرات

موجودہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان خود ماضی میں ایسی ہی رپورٹوں کی بنیاد پر سابق حکومتوں کے خلاف تحاریک چلا چکے ہیں۔ یہیں سے کرپشن پرسیپشنز انڈیکس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ سالانہ بنیادوں پر جاری ہونے والی درجہ بندی اور پاناما پیپرز جیسے انکشافات ہی کی بدولت پاکستان جیسے ممالک میں حکومتیں بٹھائی اور گرائی جاتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی رپورٹس کو قابلِ بھروسا اور مستند سمجھا جاتا ہے تبھی ایسے انتہائی اقدامات نظر آتے ہیں۔

تو کیا یہ تازہ ترین رپورٹ پاکستان کی موجودہ حکومت کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوگی؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ حکومت کی جانب سے فی الحال تو "سب اچھا ہے” کا تاثر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن حقیقت کیا ہے؟ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

[وڈیوز] آخر روس اور یوکرین کا جھگڑا کیا ہے؟

سلطنت عثمانیہ کی یاد دلاتی ترکی کی پانچ شاہکار مساجد!