میں

سلطنت عثمانیہ کی یاد دلاتی ترکی کی پانچ شاہکار مساجد!

کراچی کو روشنیوں کا شہر کہتے ہیں، لاہور زندہ دلوں کا شہر ہے، بمبئی خوابوں کا تو پیرس خوشبوؤں کا۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں مسجدوں کا شہر کون سا ہے؟ ترکی کے عظیم شہر استنبول کو مسجدوں کا شہر کہتے ہیں۔ سن 1453ء میں قسطنطنیہ فتح ہوا اور اس عظیم شہر کو اسلام بول یعنی اسلام کا شہر کہا جانے لگا۔ صدیوں تک خلافت کا مرکز رہنے کی وجہ سے یہاں بہت عظیم مسجدیں تعمیر ہوئیں، جو آج بھی شہرِ استنبول کی شان ہیں۔ لیکن صرف استنبول میں ہی نہیں بلکہ ترکی کے دوسرے شہروں میں بھی کئی بڑی اور اہم مسجدیں موجود ہیں۔ خاص طور پر ان شہروں میں جو ماضی میں ترکی کے دارالحکومت رہ چکے ہیں۔

آئیے آج ترکی کی کچھ مشہور ترین، خوبصورت ترین اور بہترین مسجدوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ہم اس سلسلے کو مزید آگے بھی بڑھائیں گے اور آپ کو دنیا کے دوسرے ملکوں کی تاریخی اور اہم ترین مسجدوں کے بارے میں بھی بتائیں گے۔

تو شروعات کرتے ہیں اُس مسجد سے جس نے ایک ایسے طرزِ تعمیر کو جنم دیا جو آج تک موجود ہے، اس کی تاریخ بہت طویل ہے اور اس پر کئی اختلافات بھی ہیں اور تنازعات بھی، اور یہی سب مل کر اس مسجد کو ایک خاص عمارت بناتے ہیں۔ ہم بات کر رہے ہیں آیا صوفیا کی۔

مسجد آیا صوفیا

آپ کو شاید سن کر حیرت ہوگی آیا صوفیا کی تعمیر اصل میں سن 360ء میں شروع ہوئی تھی۔ یہ مشرقی رومن ایمپائر یعنی بزنطینی سلطنت کا سب سے بڑا مسیحی گرجا بنی۔ البتہ اس کی موجودہ عمارت 537ء میں مکمل ہوئی تھی یعنی لگ بھگ 1500 سال پہلے۔ تصوّر کیجیے یہ اُس زمانے میں کتنا بڑا شاہکار ہوگی۔ تقریباً ایک ہزار سال تک یہ دنیا کا سب سے بڑا گرجا تھی۔

سن 1453ء میں سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا اور یہ عظیم شہر سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔ سلطان نے آیا صوفیا کو مسجد بنانے کا حکم دیا اور یہ شہر کی مرکزی جامع مسجد بن گئی۔

مرکزی عمارت کے گرد چار مینار کھڑے ہوئے، جہاں سے دن میں پانچ وقت اللہ کی کبریائی کا اعلان ہوتا۔ قبلہ رُو ایک منبر کا بھی اضافہ ہوا اور یوں اس خوبصورت جگہ سے حقیقی معبود کی عبادت ہونے لگی۔

اس مسجد کا ساڑھے 32 میٹر ڈایامیٹر یعنی قُطر کا گنبد زمین سے 55 میٹر یعنی 180 فٹ بلند ہے۔ میناروں کی بلندی 60 میٹرز سے زیادہ ہے۔ ان میں سے ایک مینار سلطان محمد فاتح کے دور میں ہی تعمیر ہو گیا تھا، جہاں سے پنج وقتہ اذان دی جاتی تھی۔ یہ مینار سرخ اینٹوں کا بنا ہوا ہے اور باقی تمام میناروں سے مختلف نظر آتا ہے۔ ایک مینار بایزید ثانی کے دور میں بنایا گیا اور آخری دو سلیم ثانی کے عہد میں مکمل ہوئے۔ یوں مسجد کے چاروں مینار مکمل ہوئے اور ان چاروں سے بیک وقت اذان دی جاتی تھی۔

آیا صوفیا میں 1931ء تک نمازِ پنجگانہ ہوتی رہی لیکن مصطفیٰ کمال پاشا کی حکومت نے مسجد کو بند کر دیا اور چار سال کے لیے 1935ء میں اسے دوبارہ کھول تو دیا لیکن مسجد نہیں بلکہ ایک عجائب گھر کی حیثیت سے۔ یہ ترکی کا سب سے بڑا اور مشہور سیاحتی مقام تو بن گئی لیکن ایسی جگہ جہاں صدیوں سے اللہ کی بڑائی بیان ہوتی رہی، اس کا یکدم عجائب گھر بن جانا بہت افسوس ناک تھا۔ ترکی کے اسلام پسند حلقوں نے عرصے تک کوششیں کیں کہ آیا صوفیا کو دوبارہ مسجد بنایا جائے لیکن اختیار اور اقتدار نہ ہونے کی وجہ سے عملاً کچھ ہو نہیں سکا۔ بالآخر 2020ء میں ایک عدالت نے آیا صوفیا کو عجائب گھر بنانے کا وہ فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، جو 1934ء میں ترکی کی اُس وقت کی کابینہ نے کیا تھا۔ یوں آیا صوفیا کی مسجد کی حیثیت سے بحالی کی راہیں ہموار ہو گئیں۔

‏24 جولائی 2020ء وہ تاریخی دن تھا جب آیا صوفیا میں تقریباً 9 دہائیوں کے بعد پہلی بار کوئی نماز ادا کی گئی۔ یہ نمازِ جمعہ کا روح پرور اجتماع تھا جس میں صدر رجب طیب ارطوغان اور ان کی کابینہ کے اراکین سمیت عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

آج آیا صوفیا میں پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے لیکن دوسرے اوقات میں یہ مسجد ہر مذہب کے ماننے والے افراد کے لیے کھلی رہتی ہے بلکہ اب تو اس پر ٹکٹ بھی ختم کر دیا گیا ہے یعنی کوئی بھی شخص اب آیا صوفیا کو مفت میں دیکھ سکتا ہے۔

آیا صوفیا میں تقریباً 9 دہائیوں کے بعد پہلی نماز اور عوام کا عظیم اجتماع

سلطان احمد مسجد

یہ ہے سلطان احمد مسجد، دنیا اسے نیلی مسجد کے نام سے جانتی ہے۔ کیونکہ اس کے اندر نیلے رنگ کی 20 ہزار خوبصورت ٹائلوں کا استعمال ہوا ہے۔ مسجد 1616ء میں سلطان احمد اوّل کے دور میں تعمیر ہوئی۔ مسجد کو عثمانی طرزِ تعمیر کا اعلیٰ ترین نمونہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ پانچ مرکزی گنبد، آٹھ ثانوی گنبد اور چھ مینار، اتنی عظیم عبادت گاہ اپنے زمانے میں کوئی نہیں ہوگی۔ کہا جاتا ہے کہ تب چھ مینار صرف مکہ مکرمہ کی مسجدِ حرام میں تھے۔ جب سلطان کو علم ہوا تو انہوں نے وہاں ساتواں مینار بھی تعمیر کرنے کا حکم دیا تاکہ مسجدِ حرام کی انفرادیت برقرار رہے۔

ویسے احمد اوّل وہ پہلے عثمانی سلطان تھے جن کے نصیب میں بڑی فتوحات نہیں آئیں۔ لیکن انہوں نے اپنا نام اِس مسجد کے ذریعے تاریخ میں امر کروا دیا ہے، جب تک یہ مسجد موجود رہے گی، سلطان کا نام زندہ رہے گا۔

نیلی ٹائلیں، جن کی وجہ سے سلطان احمد مسجد کو نیلی مسجد کہا جاتا ہے

اِس مسجد کا گنبد 43 میٹر یعنی 141 فٹ اونچا ہے جبکہ ڈایامیٹر یعنی قُطر ساڑھے 23 میٹر ہے، مطلب 77 فٹ سے بھی زیادہ۔ اس کے میناروں کی اونچائی 210 فٹ ہے جو شہر کے کئی حصوں سے نظر آتے ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر کا کام معمار محمد آغا نے انجام دیا، جو شاگرد تھے عثمانی تاریخ کے سب سے بڑے ماہرِ تعمیر سنان پاشا کے۔

نیلی مسجد میں 10 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے اور یہ آج بھی بہت مشہور اور بہت مقبول ہے۔ دنیا بھر سے لوگ یہ مسجد دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ یہاں تک کہ 2006ء میں پوپ بینیڈکٹ شانزدہم بھی اس مسجد کے دورے پر آئے۔ یہ تاریخ میں صرف دوسرا موقع تھا کہ مسیحیوں کے کسی روحانی پیشوا نے مسلمانوں کی عبادت گاہ میں قدم رکھا ہو۔


سلیمانیہ مسجد

سلطنتِ عثمانیہ کے مشہور ترین معمار سنان پاشا تھے اور ان کا سب سے بڑا شاہکار تھی سلیمانیہ مسجد جسے بنوایا بھی سب سے عظیم سلطان نے تھا، سلطان سلیمان عالیشان نے۔ 1557ء میں بننے والی اس مسجد کی اونچائی 174 فٹ ہے جبکہ میناروں کی تعداد چار ہے۔ دو بڑے مینار 249 فٹ بلند ہیں اور دو نسبتاً چھوٹے ہیں اور 209 فٹ کے ہیں۔

تقریباً ساڑھے چار سو سالوں تک استنبول شہر کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز اسی سلیمانیہ مسجد کو حاصل رہا۔ یہاں تک کہ 2019ء میں چاملیجا مسجد کو یہ اعزاز مل گیا، جس کا ذکر ہم آگے کریں گے۔

مسجد کے ساتھ ہی سلیمان عالیشان اور ان کی اہلیہ خرم سلطان کے مزارات واقع ہیں۔ ان کے علاوہ ان کی بیٹی مہرِ ماہ سلطان اور بعد میں آنے والے دو سلطانوں سلیمان ثانی اور احمد ثانی کی قبریں بھی یہی ہیں۔

سلطان سلیمان عالیشان کا مزار جو مسجد کے احاطے میں واقع ہے

جامع مسجد بورصہ

جامع مسجد بورصہ اور اس کے 22 گنبد

اگر آپ کو پرانا عثمانی طرزِ تعمیر دیکھنا ہو تو اس کے لیے آپ کو ترکی کے شہر بورصہ جانا پڑے گا جہاں کی جامع مسجد دیکھنے کے قابل ہے۔ یہ مسجد عثمانیوں کے چوتھے سلطان بایزید اوّل نے تعمیر کروائی تھی، جب بورصہ سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ اس کی تعمیر 1399ء میں مکمل ہوئی تھی اور آج بھی اس خوبصورت شہر کے مرکز میں پوری شان اور شوکت کے ساتھ کھڑی ہے۔

بایزید اوّل تاریخ میں بایزید یلدرم کے نام سے مشہور ہیں، انہوں نے 1396ء میں معرکہ نکوپولس میں یورپ کی مشترکہ فوج کو ہرایا تھا۔ یہ ایک صلیبی جنگ تھی جس کی اپیل عثمانیوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لیے پوپ بونیفیس نہم نے کی تھی۔ سلطان بایزید کی یہ کامیابی آج بھی تاریخ کی عظیم جنگی فتوحات میں شمار ہوتی ہے۔

بہرحال، اس جامع مسجد کے چھوٹے بڑے کُل 20 گنبد اور 2 مینار ہیں۔ مسجد 3 ہزار مربع میٹرز سے زیادہ کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ مسجد میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔

جامع مسجد بورصہ کی سب سے خاص بات ہے اس میں موجود خطاطی کے نمونے، جن کی وجہ سے اسے خطاطی کا عجائب گھر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی مختلف دیواروں پر کُل 192 نقوش موجود ہیں جبکہ اُس دور کے 41 بڑے خطاطوں کے 87 نمونے بھی یہاں لگائے گئے ہیں۔ ان میں قرآن مجید کی آیات بھی ہیں، احادیث بھی، اسمائے حسنہ بھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام بھی شامل ہیں۔

جامع مسجد بورصہ کا مرکزی حصہ، دیواروں اور ستونوں پر خطاطی کے نمونے بھی ظاہر ہیں

چاملیجا مسجد

اب تک ہم نے جن مساجد کا ذکر کیا ہے وہ سب عثمانی دور کی قدیم مسجدیں ہیں۔ عبادت گاہ تو ہیں لیکن ساتھ ہی آثارِ قدیمہ بھی ہیں۔ جب عثمانی سلطنت ختم ہوئی اور ترکی میں جمہوریت کے نام پر سیکولر ازم کو عوام پر تھوپا گیا تو جبر کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ یہاں تک کہ مسجد بنانے کے عمل کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔ اسلام پسندوں نے اس جبر کے خلاف طویل جدوجہد کی یہاں تک کہ چند رہنماؤں کو پھانسی تک دے دی گئی، کچھ کو سیاست سے بے دخل کر دیا گیا، پابندیاں لگا دی گئیں لیکن ایمان کا نُور کسی کے بجھائے نہیں بجھتا۔ بالآخر جب اسلام پسند ترکی میں غالب آئے تو ان کی ایک خواہش یہ بھی تھی کہ ایک عظیم مسجد بنا کر ترکی کو اس کے ماضی سے جوڑا جائے۔

استنبول کی چاملیجا مسجد اسی خواب کی تعبیر ہے۔ 2019ء میں مکمل ہونے یہ مسجد کسی بھی دوسری مسجد سے زیادہ بڑی اور شاندار ہے۔ 11 کروڑ ڈالرز کی بھاری لاگت سے بنائی گئی اس مسجد میں چھوٹے بڑے 70 گنبد ہیں، جن میں مرکزی گنبد کی اونچائی 236 فٹ ہے جبکہ چھ مینار 351 فٹ تک اونچے ہیں۔ مسجد میں 63 ہزار نمازیوں کی گنجائش موجود ہے۔ یہ ایک حقیقی میگا پروجیکٹ تھا جس کے لیے سرمایہ ترکی کی حکومت نے فراہم کیا۔

مسجد کا افتتاح 3 مئی 2019ء کو ترکی کے صدر رجب طیب ارطوغان نے کیا۔

ویسے استنبول کی تقریباً تمام مشہور مسجدیں شہر کے اُس حصے میں واقع ہیں جو یورپ میں ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ استنبول دنیا کا واحد شہر ہے جو دو بر اعظموں میں واقع ہے۔ شہر کے درمیان سے آبنائے باسفورس گزرتی ہے جو اسے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ مشرقی حصہ ایشیا میں ہے اور مغربی حصہ یورپ میں۔ یورپی حصہ ہی شہر کا قدیم ترین علاقہ ہے اور عثمانی سلطانوں کے محلّات سے لے کر تمام بڑی مساجد تک، سب اُسی علاقے میں ہیں۔ لیکن ترکی کی موجودہ حکومت نے یہ مسجد شہر کے اس حصے میں بنائی ہے جو ایشیا میں ہے۔

ویسے مسجد عثمانیوں کے طرزِ تعمیر کے مطابق ہی بنائی گئی ہے، اس میں جدیدیت کے نام پر ایسا کوئی تاثر نہیں دیا گیا، جس سے یہ مسجد کے بجائے کچھ اور لگے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسلام پسند حکومت عوام کو ماضی سے جوڑنا چاہتی ہے۔

امید ہے آپ کو یہ سلسلہ پسند آیا ہوگا، ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجیے گا کیونکہ اس سے ہمیں اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانے کا حوصلہ ملے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل دنیا بھر کے ملکوں میں بدعنوانی کا پتا کیسے چلاتا ہے؟

دنیا کے عجیب ترین، حیران کُن، خوفناک اور بھیانک مقامات