میں

وہ ملک جو آئندہ 20 سالوں میں ختم ہو جائیں گے

دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ سیاسی، معاشی اور اب ماحولیاتی مسائل اس تیزی سے جنم لے رہے ہیں کہ بہت سارے ممالک کی بقا کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ چند ممالک تو ایسے ہیں کہ جن کا اگلے 20 سالوں میں بھی موجودہ حالت میں برقرار رہنا مشکل نظر آتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں یہ کون سے ممالک ہیں:

اسپین

ہو سکتا ہے آپ میں سے بہت سارے افراد کے لیے بات حیران کن ہو لیکن ماضی کی بڑی طاقتوں میں سے ایک اسپین 2008ء سے زوال کے دہانے پر کھڑا ہے۔ بدترین معاشی بحران اور اس کے بعد آنے والی وبا کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری عام ہے اور قرضوں کی شرح بھی بہت خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن مسئلہ صرف معاشی نہیں ہے بلکہ اسپین کے دو علاقوں کا آزادی کے لیے بے تاب ہونا بھی ہے، جو اگلے 20 سالوں میں با آسانی علیحدہ ہو سکتے ہیں۔

مغربی اسپین میں قطالونیہ کا علاقہ ہے جہاں آزادی کی زبردست تحریک چل رہی ہے جو مقبولیت کی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ قطالونیہ کے عوام کے باقی اسپین کے ساتھ بہت کم تعلقات ہیں اور یہ معاشی طور پر زیادہ خوشحال بھی ہیں۔ 2013ء میں یہاں کی تحریک آزادی کے کارکنان نے 300 میل لمبی انسانی زنجیر بنائی تاکہ اس علاقے کو اسپین کے دیگر علاقوں سے کاٹ دیں۔ پھر شمالی اسپین کا باسک علاقہ بھی ہے جو پرتشدد تحریک آزادی کی بڑی تاریخ رکھتا ہے۔ یہاں کے عوام تو ہسپانوی تک نہیں بولتے بلکہ ان کی اپنی زبان اور ثقافت ہے۔ دیکھتے ہیں اسپین کب تک اس دوطرفہ دباؤ کو جھیل پاتا ہے۔


شمالی کوریا

دنیا جہاں سے کٹا ہوا ایک تنہا ملک شمالی کوریا۔ یہ دنیا کے ترقی یافتہ، امیر اور طاقتور ترین ممالک کے درمیان واقع ہے لیکن جدید دنیا سے بالکل الگ ہے۔ خود انحصاری کی کوشش کرنے والے شمالی کوریا کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ وہ 21 ویں صدی میں زندہ رہ سکے۔ شمالی کوریا کو لازمی اپنی تجارت اور تعاون کے دروازے دنیا پر کھولنا ہوں گے اور اگر ایسا ہوا تو یہاں کی آمرانہ حکومت کے لیے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ اس وقت یہاں کم جونگ ان کی حکومت ہے جو لازماً اصلاحات کی کوشش کرے گی اور اس صورت میں اپنے پاؤں پر کلہاڑی ہی مارے گی کیونکہ ایک غلطی ان کی گرفت کا خاتمہ کر سکتی ہے۔


بیلجیئم

بیلجیئم نسلی بنیادوں پر تقسیم ملک ہے۔ ملک میں دو مختلف علاقے ہیں: ایک فلینڈرز اور دوسرا والونیا اور دونوں کے درمیان بہت کم چیزیں ہی مشترک ہیں۔ جنوب میں والونیا ہے جو ایک تقریباً خودمختار علاقہ ہے اور یہاں کے عوام فرانسیسی بولتے ہیں اور آزاد والونیا بلکہ فرانس سے الحاق تک کی بات کرتے ہیں جبکہ شمالی علاقہ فلینڈرز کے عوام نسلاً فلیمش ہیں اور ان میں بھی آزاد فلینڈرز کے حامی موجود ہیں۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ اگلے 20 سالوں میں ہمیں بیلجیئم کی جگہ دو نئی آزاد ریاستیں یورپ میں نظر آئیں۔


عراق

عالمی طاقتوں کی آماجگاہ بلکہ شکار گاہ بننے کے بعد عراق کئی ہنگاموں سے دوچار ہوا۔ یہ ویسے ہی ایک غیر فطری ریاست تھی جو پہلی جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ نے ثقافت، مسلک اور زبان کی تقسیم کو ملحوظِ خاطر رکھے بغیر قائم کی۔ بعد میں صدام حسین کے جابرانہ اقتدار نے اسے متحد رکھا لیکن امریکی قبضے کے بعد سے یہ حالات کے رحم و کرم پر ہے۔ شمال میں کرد بولنے والے ہیں، مغرب میں سُنیوں کی اجارہ داری ہے تو جنوب اور جنوب مشرق میں شیعہ اکثریتی علاقے ہیں۔ ان کے درمیان مختلف معاملات پر اتفاق کم ہے اور اختلافات زیادہ ہیں۔ خدشہ ہے کہ اگلی دو دہائیوں میں اس علاقے میں تین مختلف ریاستیں وجود میں آ سکتی ہیں۔


لیبیا

شمالی افریقہ کے ملک لیبیا کا حال بھی تقریباً یہی ہے۔ اطالوی نو آبادی رہنے کے بعد یہ دہائیوں تک معمر قذافی کی آہنی گرفت میں رہا لیکن جیسے ہی 2011ء کی خانہ جنگی میں قذافی حکومت کا خاتمہ ہوا، ریاست کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ملک عملاً دو حصوں میں تقسیم ہے، ایک طرف اقوامِ متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت ہے جس کا دارالحکومت طرابلس ہے تو دوسری جانب سابق جرنیلوں کا ٹولا ہے جو ملک کے بڑے حصے پر قبضہ کیے بیٹھا ہے۔ اس وقت ملک میں مفاہمت کی بات چل رہی ہے اور ایک متفقہ حکومت کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن خدشہ ہے کہ سیاسی اختلافات گاہے پھوٹتے رہیں گے اور ہو سکتا ہے کہ مستقبلِ قریب میں ایک متحدہ لیبیا کا وجود تک نہ بچے۔


برطانیہ

کیا زمانہ تھا کہ ”برطانیہ کی حدود میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا،“ ماضی کی یہ سپر پاور اب سکڑ کر صرف جزیرہ برطانیہ تک محدود رہ گئی ہے اور اکیسویں صدی میں تو اسے بقا کا مسئلہ در پیش ہو گیا ہے۔ اسکاٹ لینڈ میں 2014ء میں آزادی کے لیے ریفرنڈم ہوا تھا جو بظاہر تو ناکام ہوا لیکن یہ اسکاٹ باشندوں کے ارادوں کو ظاہر کرنے کے لیے کافی تھا۔ یہی نہیں بلکہ شمالی آئرلینڈ اور ویلز میں بھی خود مختاری کی تحریکیں موجود ہیں اور اگر ان میں سے کوئی بھی علاقہ آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو برطانیہ عظمیٰ کا خاتمہ ہو جائے گا۔


امریکا

امریکا بہت بہت بڑا ملک ہے، اس کی صرف ایک ریاست ٹیکساس ہی رقبے میں تقریباً پاکستان جتنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کے مختلف اختلافات اب بھی کسی نہ کسی حد تک موجود ہیں، پھر سیاسی و ثقافتی تفریق ہے اور نسلی بھی۔ ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کے حالیہ اختلافات کے بعد بھی جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اس سے ممکن ہے کہ آیندہ 20 سالوں میں چند ریاستہائے متحدہ امریکا کے وفاق کی زنجیر توڑ دیں۔ ان میں جن ریاستوں کے الگ ہونے کا خطرہ سب سے زیادہ ہے وہ الاسکا، کیلیفورنیا اور ٹیکساس ہیں۔ اس کے علاوہ امریکا کا چین کے مقابلے میں نمبر ایک معاشی طاقت ہونے کا اعزاز کھو بیٹھنا ظاہر کرتا ہے کہ اگر اگلی دو دہائیوں میں دنیا میں عسکری منظرنامے پر بھی کوئی تبدیلی رونما ہوئی تو معاملہ صرف دو، تین ریاستوں تک محدود نہیں رہے گا اور امریکا کا حال بھی روس جیسا ہوگا۔


مالدیپ

بحرِ ہند میں واقع دنیا کے خوبصورت ترین جزائر مالدیپ کو سیاسی، ثقافتی، مذہبی اور لسانی نہیں بلکہ ماحولیاتی خطرات کا سامنا ہے۔ یہ جزائر سطحِ سمندر میں اضافہ ہونے کی وجہ سے بقا کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ یہاں تک کہ ایک حکمران نے جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں زمین خریدنے تک کی کوشش کی تاکہ اپنے عوام کو ملک ڈوبنے سے پہلے وہاں منتقل کر سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

پاکستان آئیں تو کیا خریدیں؟

یہ 20 مقامات دیکھ لیں، اس سے پہلے کہ یہ ختم ہو جائیں