میں

کیا ہزارہ واقعی صوبہ بننے جا رہا ہے؟

صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی نے ایک مرتبہ پھر صوبہ ہزارہ بنانے کے لیے قرارداد منظور کر لی ہے اور یوں ایک مرتبہ پھر صوبہ بنانے کی تحریک زور پکڑ چکی ہے۔ اگر یہ تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو پاکستان کی تاریخ میں ایک نئی مثال قائم ہو جائے گی کیونکہ ملک کی 75 سال کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی نیا صوبہ بنایا گیا ہو۔

لیکن ملک کے زیادہ تر عوام نہیں جانتے کہ کون سا علاقہ ہزارہ کہلاتا ہے؟ اگر نیا صوبہ بنتا ہے تو اس میں کون سے علاقے شامل ہوں گے؟ اس کا رقبہ، آبادی اور محلِ وقوع کیا ہے؟ آج ہم کوشش کریں گے اس حوالے سے آپ کی معلومات میں اضافہ کریں اور ساتھ ہی ہزارہ کو صوبہ بنانے کی کوششوں کی تھوڑی سی تاریخ بھی بیان کریں۔

دراصل یہ تحریک سابق ہزارہ ڈویژن کو صوبہ بنانے کی ہے، جو صوبہ خیبر کے سات ڈویژنز میں سے ایک تھا۔ اب یہ علاقہ کُل آٹھ اضلاع پر مشتمل ہے: جن میں ایبٹ آباد، ہری پور، مانسہرہ،بٹگرام، تور غر، کولئی پالس، کوہستان زیریں اور کوہستان بالا شامل ہیں۔ یہ علاقہ 17 ہزار مربع کلومیٹرز سے زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا ہے جبکہ اس کی آبادی 53 لاکھ سے زیادہ ہے۔

ویسے تو ہندکو یہاں کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ مجوزہ صوبے کی 11 لاکھ آبادی پشتو اور تقریباً 10 لاکھ آبادی کوہستانی اور دیگر مقامی زبانیں بولتی ہے۔ ہندکو بولنے والے ہری پور، ایبٹ آباد اور مانسہرہ کے اضلاع میں ہی اکثریت میں ہے جبکہ باقی پانچ ضلعوں میں دوسری زبانیں بولنے والوں کی تعداد اُن سے زیادہ ہے۔ ان پانچ اضلاع کا رقبہ بھی 9 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے جو پورے ہزارہ ڈویژن کا تقریباً آدھا بنتا ہے۔

اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ایبٹ آباد اور مانسہرہ کے علاقے ہمیں پہلے پشاور ڈویژن میں نظر آتے ہیں جب یہ ضلع ہزارہ کہلاتے تھے۔ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد 1976ء میں ضلع ہزارہ کو پشاور سے الگ کر کے علیحدہ ڈویژن بنایا گیا۔ اس میں دو ہی اضلاع تھے، ایک ایبٹ آباد اور دوسرا مانسہرہ لیکن کچھ عرصے بعد مانسہرہ میں بٹگرام کو ضلع بنایا گیا اور پھر ہری پور کو ایبٹ آباد سے الگ کر کے ضلع کی حیثیت دی گئی۔

سن 2000ء میں ملک میں ڈویژنز کا خاتمہ کر دیا گیا اور اس کے بعد مختلف مواقع پر یہاں مختلف علاقوں کی ضلعی حیثیت ملی ہے، جن میں 2011ء میں ضلع مانسہرہ سے نئی ضلع تور غر نکالا گیا اور 2014ء میں ضلع کوہستان کو دو حصوں میں تقسیم کر کے کوہستان زیریں اور کوہستان بالا کے اضلاع وجود میں آئے۔

تور غر اور کوہستان کی تقسیم کے دنوں میں ہی ہزارہ صوبہ تحریک اپنے عروج پر پہنچی۔ 2010ء میں حکومتِ پاکستان نے شمال مغربی سرحدی صوبے کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخوا کیا اور یہیں سے اختلافات کا آغاز ہوا اور ہزارہ صوبے کی تحریک کھڑی ہو گئی۔

ویسے یہ مطالبہ نیا نہیں تھا۔ مفتی ادریس اور عبد الخالق وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے 1957ء میں اسی علاقے میں الگ صوبہ کوہستان بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ پھر 1987ء میں محمد آصف ملک نے ہزارہ قومی محاذ تشکیل دیا، جو علیحدہ صوبے کا مطالبہ کرتا تھا۔ لیکن 2010ء میں کھڑی ہونے والی تحریک نے بہت زور پکڑا۔ اس کے بانی بابا حیدر زمان تھے اور ان کی شہرت اور مقبولیت اتنی تھی کہ کوئی مقامی سیاست دان اُن کے خلاف کچھ بول نہیں سکتا تھا۔ تحریک نے اپنے مطالبے کے حق میں زبردست مظاہرے کیے اور کئی دنوں تک شاہراہِ قراقرم کو بھی بند رکھا۔ پھر جب پولیس نے مظاہرین کے خلاف قدم اٹھایا تو وہ بھی سخت تھا، لگ بھگ 10 افراد مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے بعد تحریک مزید عروج حاصل کرتی، لیکن 2013ء کے عام انتخابات نے ہزارہ تحریک کا سارا زور توڑ دیا۔ ہوا یہ کہ صوبہ ہزارہ تحریک نے انتخابات میں حصہ لیا لیکن علاقے کی تمام اہم سیاسی شخصیات، جو ویسے تو بابا حیدر زمان کے ساتھ تھیں، لیکن اس نازک موقع پر بڑی سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ لے کر میدان میں اتریں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہزارہ تحریک کے تمام امیدواروں کو بُری طرح شکست ہوئی۔

سال 2014ء میں صوبائی اسمبلی نے ہزارہ صوبہ بنانے کے حق میں پہلی قرارداد تو منظور کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحریک کا دم خم نکل چکا تھا اور جو کسر رہ گئی تھی وہ 2018ء میں بابا حیدر زمان کے انتقال سے پوری ہو گئی۔ جب سے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں، تب سے ہزارہ صوبے کا مطالبہ بھی دوبارہ سامنے آ رہا ہے۔ اس وقت کئی مقامی رہنما ہیں جو ہزارہ کو الگ صوبہ بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور اِس قرارداد کی منظوری اور ساتھ ہی سینیٹ میں اس حوالے سے بل پیش کرنے کی کوششیں بھی اس عمل کا حصہ ہیں۔

بہرحال، اِس صوبہ ہزارہ کی تحریک میں دوبارہ جان ڈالنے کی کوشش کرنا، وہ بھی عین بلدیاتی انتخابات سے پہلے، ایک سیاسی داؤ پیچ لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس پر عملاً کچھ نہ ہو اور صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلایا جائے۔ لیکن اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ ملک میں انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں اور ضلعوں کا بننا بہت ضروری ہے۔

ترکی ہی کو دیکھ لیں، جو آبادی اور رقبے دونوں کے لحاظ سے پاکستان سے بہت پیچھے ہے لیکن جہاں پاکستان میں صرف 4 صوبے ہیں، وہاں ترکی میں صوبوں کی تعداد 81 ہے۔ اس لیے نہ صرف کے پی کے میں بلکہ ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی نئے صوبے بننے چاہئیں، لسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پر۔ ان کا مقصد کچھ سیاسی جماعتوں کو فائدہ پہنچانا نہ ہو، کیونکہ ایسا ہوا تو نئے صوبے بنانے کا فائدہ نہیں، اُلٹا نقصان ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

الوداع پروفیسر! محمد حفیظ کی پانچ یادگار اننگز

دنیا کی منفرد اور انوکھی ترین سرحدیں