میں

وہ سائنسی "حقائق” جو دراصل سچ نہیں

کیا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ انسان اپنے دماغ کا صرف 10 فیصد استعمال کرتا ہے؟ یا پھر یہ کہ خلا سے نظر آنے والی واحد انسانی تعمیر دیوارِ چین ہے؟ تو تیار ہو جائیں کیونکہ ہم آج ایسے کئی مفروضوں کا پردہ چاک کرنے والے ہیں۔

مفروضہ 1: پانی بجلی کا اچھا کنڈکٹر ہے

گو کہ یہ ایک داستان ہی ہے لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ آپ اپنا ٹوسٹر لے کر غسل خانے میں گھس جائیں۔ دراصل خالص پانی بجلی کا غیر موصل یعنی insulator ہے، یعنی یہ بجلی کا اچھا موصل (conductor) نہیں ہے۔ لیکن ہمارا زور "خالص” پر ہے، خطرہ اصل میں پانی میں موجود معدنیات اور کیمیائی مادّوں سے ہوتا ہے کہ جنہیں ions کہتے ہیں اور یہی ہیں جو الیکٹرک چارج رکھتے ہیں۔ یعنی اصولاً تو خالص پانی محفوظ ہے لیکن حقیقی دنیا میں ایسا پانی ملنا تقریباً ناممکن ہے، یہاں تک کہ صاف شدہ پانی میں بھی ions پائے جاتے ہیں۔

مفروضہ 2: جسم کے اندر خون نیلے رنگ کا ہوتا ہے

یہ بہت ہی عام غلط فہمی ہے کہ خون کو جب تک ہوا نہ لگے، یا یہ آکسیجن کا حامل نہ ہو تو اس کا رنگ نیلا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے جسم کی رگیں نیلے رنگ کی نظر آتی ہیں لیکن دراصل انسانی خون جسم کے اندر بھی ویسا ہی ہوتا ہے جیسا باہر نظر آتا ہے، یعنی لال رنگ کا۔ یہ نیلے رنگ کا "کارنامہ” دراصل ہماری رگوں کے اوپر موجود بافتوں (tissues) کا ہے، جن کی وجہ سے ہمیں دوڑتا خون نیلے رنگ کا لگتا ہے۔

مفروضہ 3: انسان صرف 10 فیصد دماغ استعمال کرتا ہے

یہ بہت ہی عام غلط فہمی ہے لیکن یاد رکھیں کہ یہ کسی فلم کا مرکزی خیال تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا حقیقت سے دُور پرے کا بھی تعلق نہیں۔ اس جھوٹ کی بنیاد ایک حقیقت پر رکھی جاتی ہے کہ 90 فیصد دماغی خلیات دراصل "سفید مادّہ” (وائٹ میٹر) ہیں جو نیورونز کو زندہ رکھنے میں مدد دیتے ہیں اور صرف 10 فیصد وہ "سرمئی مادّہ” (گرے میٹر) ہے جو سوچنے کے کام آتا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ یہ سفید مادّہ کبھی بھی دماغ کی طاقت کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا، اس لیے یہ کہنا کہ 90 فیصد دماغ ہی بیکار ہے، مکمل طور پر غلط ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ چھلکے پھینک کر کہیں کہ پوری مونگ پھلی ضائع ہو گئی۔

مفروضہ 4: دیوارِ چین خلا سے نظر آنے والی واحد انسانی تعمیر

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جھوٹ 1932ء میں ایک معروف جریدے نے پھیلایا، جبکہ انسان کے خلا میں قدم رکھنے کے دُور پرے تک کوئی امکانات نہیں تھے۔ اس دعوے کی سرے سے کوئی بنیاد ہی نہیں۔ خلا بازوں کا کہنا ہے کہ بہت کم بلندی پر ہوں تو الگ بات ہے، ورنہ دیوارِ چین خلا سے نظر ہی نہیں آتی۔

 

مفروضہ 5: گرگٹ ارد گرد کے مطابق رنگ بدلتا ہے

بلاشبہ! گرگٹ اپنے خلیات (سیلز) کو پھیلا کر اور سکیڑ کر رنگت تبدیل کر سکتے ہیں، لیکن وہ محض اپنے خلیات میں موجود کرسٹلز سے روشنی ہی منعکس کرتے ہیں، اپنے ارد گرد کے ماحول کے ہر رنگ کو اختیار نہیں کر سکتے۔ یعنی ان کے رنگت بدلنے کا کیموفلاح سے تعلق نہیں ہے۔ بلکہ گرگٹ ایک دوسرے سے رابطے کے لیے ان خلیات کا استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً گہرے رنگ ان کے جارحانہ رویّے کو ظاہر کرتے ہیں اور ساتھ ہی وہ جسم کے درجہ حرارت پر قابو پانے کے لیے بھی رنگت بدلتے ہیں۔

مفروضہ 6: پانی صرف زمین پر موجود ہے

اس میں کوئی شک نہیں انسان نے اب تک کائنات میں پانی پر انحصار کرنے والی کوئی مخلوق دریافت نہیں کی، لیکن یہ کہنا کہ پانی صرف اور صرف زمین پر ہے، درست نہیں۔ سائنس دانوں نے پتہ چلایا ہے کہ مریخ پر نہ صرف محض برف بلکہ مائع نمکین پانی بھی موجود ہے۔ یہی نہیں بلکہ مشتری کے چاند یوروپا کی برفانی تہہ کے نیچے ہماری زمین سے دو گنا پانی بھی دریافت کیا ہے۔ تو کیا دُور دراز سیاروں پر موجود اس پانی کی بدولت کوئی زندگی بھی موجود ہے؟ اس بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے۔

مفروضہ 7: چیونگ گم کو ہضم ہونے میں 7 سال لگتے ہیں

اگر چیونگ گم غلطی سے پیٹ میں چلی جائے یا تھوکنے کے لیے کوئی کوڑا دان نہ ملے اور مجبوراً چیونگ گم نگلنی پڑ جائے تو پریشان مت ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارا جسم اسے ہضم کر ہی نہیں سکتا، یہاں تک کہ 7 سالوں میں بھی نہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چیونگ گم پیٹ میں جا کر چپک جاتی ہے۔ دراصل یہ ہمارے ہاضمے کے نظام میں سے گزر جاتی ہے اور سالم حالت ہی میں جسم سے خارج ہو جاتی ہے۔ ہاں! بچے اگر زیادہ چیونگ گم نگل لیں تو یہ ان کی آنتوں کو بند ضرور کر سکتی ہیں، البتہ ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے۔

مفروضہ 8: شترمرغ اپنا سر ریت میں دبا لیتا ہے

یہ کتنا عام مفروضہ ہے نا؟ یہاں تک کہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا لینا عام محاورہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر شتر مرغ ایسا کرے تو دم گھٹنے سے ہی مر جائے۔ دراصل شتر مرغ کسی شکاری کو دیکھ کر اپنا سر اور گردن زمین پر رکھ دیتا ہے۔ اب یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ شتر مرغ کا سر اور گردن خاکی رنگ کے ہوتے ہیں تو دُور سے ایسا لگتا ہے جیسے اس نے اپنا سر زمین میں دبایا ہوا ہے۔

مفروضہ 9: بجلی ایک جگہ پر دوسری مرتبہ نہیں گرتی

یہ ایک عام مفروضہ ہے کہ بجلی ایک ہی مقام پر دوبارہ نہیں گرتی، لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ امریکی شہر نیو یارک کی مشہور ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کو ہی لے لیں، ایک مرتبہ طوفان کے دوران اس پر 24 منٹ میں آٹھ مرتبہ بجلی گری۔ بجلی کش سلاخ (لائٹننگ راڈز) نہ بھی ہوں تو بجلی کو ایک ہی مقام پر دوبارہ گرنے سے کوئی چیز روک نہیں سکتی۔ البتہ اس کا انحصار مختلف عوامل پر ہے، مثلاً بلندی، رکے ہوئے پانی کی موجودگی وغیرہ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

آخر روپیہ کو روپیہ ہی کیوں کہا جاتا ہے؟

اپنی آمدنی کیسے بڑھائیں؟ 12 منفرد طریقے