میں

تجارت کے لیے دنیا کے اہم بحری راستے – قسط 3

آج اس جدید دور میں بھی زیادہ تر عالمی تجارت سمندروں کے ذریعے ہوتی ہے۔ ابتدائی دو اقساط میں ہم نے آپ کو بحری تجارت کی اہمیت، تاریخ اور اس کے چند اہم ترین راستوں کے بارے میں بتایا ہے۔ نہرِ سوئز، نہرِ پاناما، آبنائے ملاکا اور آبنائے ہرمز جیسی اہم آبی گزرگاہوں کا تعارف ہو چکا ہے لیکن اب اس سلسلے میں مزید تین اہم مقامات شامل کیے جا رہے ہیں: آبنائے جبرالٹر، آبنائے باسفورس اور آبنائے باب المندب۔

آئیے آج کی قسط کی شروعات کرتے ہیں آبنائے جبرالٹر سے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ جبرالٹر کا اصل نام جبل الطارق ہے؟ اور جبرالٹر اصل میں اسی نام کی بگڑی ہوئی شکل ہے؟

جبل الطارق، جس کا نام بگڑ کر جبرالٹر ہوا

جی ہاں! اس آبنائے کے قریب ہی وہ چٹان واقع ہے جس کے دامن میں کبھی عظیم مسلمان فاتح طارق بن زیاد کا لشکر اترا تھا۔ اس کے بعد اگلی کئی صدیوں تک اسپین پر مسلمانوں کی حکمرانی رہی تھی۔ تب اس چٹان کو جبل الطارق کہا جاتا ہے، جو بعد میں تبدیل ہو کر جبرالٹر بن گیا۔ یہ آبنائے بھی اسی نام پر ہے۔

یہ آبنائے یورپ کو افریقہ سے جُدا کرتی ہے، بلکہ ایک مقام پر تو دونوں بر اعظموں کے درمیان فاصلہ صرف 13 کلومیٹرز رہ جاتا ہے۔

یہ آبنائے قدیم زمانے سے ہی بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ یہ بحیرۂ روم کو بحرِ اوقیانوس سے ملاتی ہے۔

جنوبی یورپ اور شمالی افریقہ کے ساحلوں پر واقع بندرگاہیں تو بحیرۂ روم سے ایک دوسرے سے رابطہ کر سکتی ہیں لیکن ان علاقوں کو افریقہ اور یورپ کے باقی علاقوں سے جوڑنے کے لیے آبنائے جبرالٹر کام آتی ہے۔

مثال کے طور پر ترکی، شام، اٹلی، یونان، مصر اور دیگر کئی ممالک کے بحری جہاز برطانیہ، جرمنی اور امریکا جانے کے لیے اس آبنائے سے گزرتے ہیں۔

نہرِ سوئز بننے کے بعد تو آبنائے جبرالٹر کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اب ایشیا سے یورپ اور امریکا جانے اور وہاں سے آنے والے بحری جہاز آبنائے جبرالٹر سے ہی گزرتے ہیں۔

آبنائے جبرالٹر کے شمال میں اسپین اور جنوب میں مراکش واقع ہے۔ ان دونوں ملکوں نے 1980ء میں آبنائے کے نیچے ایک سرنگ بنانے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ یہ ریلوے سرنگ دونوں ممالک کو با آسانی آپس میں ملا دیتی۔ لیکن 40 سال گزر گئے، اس منصوبے پر عملاً کوئی کام نہیں ہوا۔


یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ترکی کا شہر استنبول دو بر اعظموں پر واقع ہے۔ تو آخر وہ کیا ہے جو اس شہر کو دو بر اعظموں میں تقسیم کرتا ہے؟ وہ ہے آبنائے باسفورس!

یہ ایک سمندری نہر ہے جو اس شہر کے بالکل درمیان سے گزرتی ہے۔ یہ دنیا کی سب سے پتلی آبنائے ہے جس کی چوڑائی ایک مقام پر تو صرف 700 میٹر ہے۔

یہ آبنائے بحیرۂ اسود کو بحیرۂ مرمرہ اور یوں بحیرۂ روم سے جوڑتی ہے۔ ترکی تو چلیں بحیرۂ روم کے ساتھ بہت لمبا ساحل رکھتا ہے لیکن جو ممالک بحیرۂ اسود کے کنارے واقع ہیں، اُن کے لیے یہ آبنائے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ مثلاً بلغاریہ، رومانیہ، یوکرین اور جارجیا، جن کے لیے بین الاقوامی سمندروں تک پہنچنے کا واحد راستہ یہی ہے۔

روس کی جنوب مغربی اور ترکی کی شمالی بندرگاہیں بھی اسی آبنائے سے یورپ، امریکا اور ایشیا سے تجارت کرتی ہیں۔

بحیرہ اسود کے گرد واقع ممالک جو بحری تجارت کے لیے آبنائے باسفورس کا استعمال کرتے ہیں

باسفورس انتہائی گنجان آباد علاقے سے گزرتی ہے، جس کے ایک طرف استنبول کا ایشیائی علاقہ ہے اور دوسری طرف یورپی حصہ۔ ان دونوں گنجان آباد علاقوں کو ملانے کے لیے ترکی نے تین عظیم الشان پل اور دو حیرت انگیز زیرِ آب سرنگیں بنا رکھی ہیں۔

پہلا پُل 1973ء میں مکمل ہوا تھا جبکہ آخری 2016ء میں عوام کے لیے کھولا گیا۔ زیرِ آب سرنگوں میں سے ایک ریلوے کے لیے ہے اور ایک عوامی ٹریفک کے لیے۔

آخر میں چلتے ہیں اور ایک اہم آبنائے کی طرف۔ جس کا نام ہے آبنائے باب المندب یعنی سوگ کا دروازہ۔ یہ نام یہاں پیش آنے والے کئی حادثات کی وجہ سے دیا گیا ہوگا۔

خیر، نام میں کیا رکھا ہے؟ اس آبنائے کا کام بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ بحیرۂ قلزم اور بحیرۂ روم کو نہرِ سوئز ملاتی ہے۔ لیکن بحیرۂ قلزم کو خلیجِ عدن اور یوں بحیرۂ عرب سے جوڑنے کام یہ آبنائے کرتی ہے۔

ایشیا سے یورپ اور امریکا جانے والے زیادہ تر جہاز آبنائے باب المندب میں داخل ہو کر یہاں سے نہرِ سوئز سے ہوتے ہوئے بحیرۂ روم میں یا اس سے آگے اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔

یہ جزیرہ نما عرب کے جنوب مشرقی کونے پر واقع ہے، جہاں افریقہ اور ایشیا کے درمیان فاصلہ صرف 32 کلومیٹرز رہ جاتا ہے۔

اس آبنائے کے ایک طرف یمن ہے تو دوسری جانب افریقہ کے ممالک ایرٹریا اور جبوتی واقع ہیں۔

یمن اور جبوتی نے اس آبنائے پر ایک پُل کا منصوبہ ضرور بنایا ہے لیکن اس پر عملی طور پر کوئی کام نہ ہوا ہے اور نہ ہی مستقبلِ قریب میں ممکن ہے۔

یہ آبنائے بھی دنیا کے مصروف ترین تجارتی راستوں میں سے ایک ہے کیونکہ سعودی بندرگاہ جدہ کے علاوہ اردن، اسرائیل، سوڈان اور مصر کی کئی اہم بندرگاہیں بھی بحیرۂ قلزم میں واقع ہیں۔ ان کے علاوہ باقی پوری دنیا کے لیے یہ آبنائے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

[وڈیوز] کیا نابینا افراد بھی خواب دیکھتے ہیں؟

وہ سائنس دان جو اپنی ہی ایجادات کے ہاتھوں مارے گئے