میں

وہ سائنس دان جو اپنی ہی ایجادات کے ہاتھوں مارے گئے

تاریخ میں چند سائنس دان ایسے بھی گزرے ہیں جو اپنی ہی ایجادات کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ویسے تو نجانے کتنے ہوں گے کہ جن کا نام تاریخ کے صفحات میں موجود نہیں لیکن ایسے پہلے قابلِ ذکر سائنس دان تھے فرانس کے ژاں فرانکو پیلاترے دی روزیئر۔ وہ ایک کیمیا دان تھے اور اسی مہارت کی بدولت ہوا بازی میں کچھ نیا کرنا چاہتے تھے۔

یہ 1785 کی بات ہے روزیئر اس غبارے کے ذریعے انگلش چینل یعنی رودبار انگلستان پار کرنا چاہ رہے تھے جو انہوں نے خود بنایا تھا۔ یہ ایک تجربہ تھا جس میں انہوں نے ہائیڈروجن اور گرم ہوا کا استعمال کر کے غبارے کو اڑانے کی کوشش کی تھی، لیکن بد قسمتی سے اس غبارے میں آگ لگ گئی اور وہ گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں روزیئر کی بھی موت واقع ہو گئی۔


ویسے مشہور خاتون سائنس دان میری کیوری کی موت خون کے ایک مرض کی وجہ سے ہوئی تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے سالوں تک تابکار مواد پر کام کیا تھا جس کے اثرات ان کے جسم پر پڑے تو ایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ میری کیوری کی وفات بھی اپنی ہی ایجاد کے ہاتھوں ہوئی۔


ٹائی ٹینک کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ بحری جہاز 1912ء میں اپنے پہلے ہی سفر میں ڈوب گیا تھا اور ڈیڑھ ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ انہی میں جہاز کے ڈیزائنر تھامس اینڈریوز بھی شامل تھے جو پہلے سفر میں برطانیہ سے امریکا جا رہے تھے۔


امریکا کے ایک مشہور موجد تھے ولیم بلاک۔ لیتھ کٹنگ مشین، کاٹن پریس، سِیڈ پلانٹر اور گرَین ڈرل بنا کر انہوں نے بہت شہرت حاصل کی۔ لیکن وہ پرنٹنگ پریس کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے تھے۔ انہوں نے ایک ویب روٹری پریس بنایا جس میں کاغذ کے بڑے رول ڈالے جاتے تھے۔

‏1867ء میں وہ اپنے اسی پریس پر کام کر رہے تھے کہ اس کا ایک بیلٹ پھنس گیا۔ انہوں نے بجائے مشین بند کرنے کے مشین کو لات ماری تاکہ بیلٹ واپس اپنی جگہ پر آ جائے۔ لیکن اس حرکت کے دوران ان کا پاؤں مشین میں چلا گیا جس نے اسے کچل کر رکھ دیا۔ ٹانگ بچانے کی بڑی کوششیں کی گئیں لیکن زخم بگڑ گیا۔ بالآخر ٹانگ کاٹنے کا فیصلہ کیا گیا اور آپریشن کے دوران ہی ان کی موت واقع ہو گئی۔


ایک اور امریکی سائنس دان تھے ہوریس لاسن ہنلی۔ انہوں نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک آبدوز کا ڈیزائن تیار کیا تھا بلکہ سرمایہ کاری بھی انہی کی تھی۔ 1864ء میں ان کی بنائی گئی آبدوز ہنلی تاریخ کی وہ پہلی لڑاکا آبدوز بنی کہ جس نے کسی بحری جہاز کو ڈبویا ہو۔ یہ کارنامہ اس آبدوز نے امریکی خانہ جنگی کے دوران انجام دیا۔ لیکن وہ کامیابی کے ساتھ واپس اپنی منزل پر نہیں پہنچ پائی۔ ایک غوطہ لگانے کے دوران آبدوز کا اگلا حصہ پھنس گیا اور پھر اس میں موجود تمام آٹھوں افراد مارے گئے، جن میں خود لاسن ہنلی بھی شامل تھے۔


تھامس مجلی جونیئر بھی ایک بڑے سائنس دان اور مؤجد تھے۔ لیکن ان کی ایجادات نے ماحول پر جو اثرات مرتب کیے، اس کی وجہ سے وہ اب بہت بدنام ہیں۔ ان کی انجن کی طاقت بڑھانے کے لیے پٹرول میں سیسہ شامل کرنے کی ایجاد ہو یا ریفریجرنٹ کے طور پر فریون کو متعارف کروانا، ان دونوں ایجادات نے زمین کے ماحول کو بہت نقصان پہنچایا۔ لیکن وہ خود کسی کیمیائی مادّے کے رد عمل سے نہیں مرے بلکہ ان کی موت کا واقعہ بہت عجیب سا ہے۔ دراصل انہیں پولیو لاحق ہو گیا تھا اور ان کا نچلا دھڑ ناکارہ ہو گیا تھا۔ انہیں اچھا نہیں لگتا تھا کہ انہیں روزانہ بستر سے اٹھایا جائے اور ان کو معذور سمجھا جائے۔ اس لیے انہوں نے ایک پیچیدہ مشین تیار کی، جس کی مدد سے وہ بستر سے خود اٹھ سکتے تھے اور یہ مشین زبردست کام کرتی تھی۔ بس ایک دن وہ نجانے کس طرح اپنی اسی مشین میں پھنس گئے اور دم گھٹنے سے مارے گئے۔


آپ کو پتہ ہے کہ مین ہٹن پروجیکٹ کیا ہے؟ یہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران پہلا ایٹم بم بنانے کا امریکی منصوبہ تھا۔ جس میں طبیعیات دان اور کیمیا دان لوئس سلوٹن بھی شامل تھے۔ ایک دن وہ پلوٹونیئم کور (core) کے دونوں حصوں کو جوڑنے کا عمل اپنے ساتھیوں کو دکھا رہے تھے۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ وہ یہ عملی تجربہ کر رہے تھے لیکن اس روز ان کے ہاتھ سے اسکرو ڈرائیور نکل گیا جس سے یہ دونوں حصے ملے اور زبردست تابکاری پیدا ہوئی جس کے سلوٹن پر فوری اثرات مرتب ہوئے۔ ان کا ہاتھ جل گیا، منہ کا ذائقہ کڑوا ہو گیا اور ہسپتال پہنچتے پہنچتے تو ان کی طبیعت مزید بگڑ گئی۔ اندرونی سوزش، ذہنی الجھاؤ، جسم پر چھالوں کا نکل آنا اور ہاتھوں کا سوج جانا۔ بالآخر ان کے جسم نے کام کرنا چھوڑ دیا اور یوں یہ 35 سالہ سائنس دان جان کی بازی ہار گیا۔ ویسے ان کے ایک ساتھی ہیری ڈیگلیئن بھی اسی کور کی تابکاری سے مارے گئے تھے۔


فرانسس ایڈگر اسٹینلی نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر فوٹوگرافی ڈرائی پلیٹس بنانے کا کام کیا اور خوب پیسہ بنایا۔ لیکن ان کا کارنامہ تھا مشہور اسٹینلی اسٹیمر گاڑی۔ یہ گاڑی اپنی رفتار کی وجہ سے بہت مشہور تھی۔ 1906ء میں اس گاڑی کے "راکٹ” ورژن نے 127 میل فی گھنٹہ کی رفتار حاصل کی تھی۔ یہ گاڑی فروخت بھی بہت ہوئی اور ان کی اسٹینلی موٹر کیرج کمپنی مالا مال ہو گئی۔ لیکن بالآخر الیکٹرا اسٹارٹر اور پٹرول سے چلنے والے انجن آ گئے اور ان کی گاڑی مقبولیت گھٹتی چلی گئی۔ 1918ء میں ایک دن فرانسس اپنی بنائی ہوئی گاڑی ہی چلا رہے تھے کہ سڑک پر کسی اچانک رکاوٹ سے بچنے کے دوران گاڑی ان کے قابو سے باہر ہو گئی اور سامنے لکڑیوں کی ٹال میں جا گھسی۔ انہیں شدید زخمی حالت میں گاڑی سے نکالا گیا لیکن وہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے چل بسے۔ بعد ازاں 1924ء میں ان کی کمپنی بھی بند ہو گئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجارت کے لیے دنیا کے اہم بحری راستے – قسط 3

[وڈیوز] سب سے لمبا اور سب سے چھوٹا روزہ کہاں ہوگا؟