میں

بچوں کی تربیت کے کچھ سنہری اصول

بچوں کا ذہن تو خالی تختی کی طرح ہوتا ہے۔ عمر بڑھتی ہے اور اس تختی پر کچھ نہ کچھ نقش ہوتا رہتا ہے۔ جہاں والدین کی اچھی تربیت سے بہت سی خوبیاں سیکھتے ہیں، وہیں کچھ بُری عادتیں بھی ان کے ساتھ لگ جاتی ہیں۔ مثلاً ضد اور من مانی کرنا، چڑچڑا پن دکھانا بلکہ انتہائی صورت میں دوسرے بہن بھائیوں سے لڑنا جھگڑنا اور ہاتھا پائی کرنا بھی شامل ہے۔ اس صورت حال میں والدین کا کردار بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ وہ نہ صرف بچوں کے درمیان لڑائی جھگڑوں کو پنپنے سے روک سکتے ہی بلکہ اپنی تربیت کے ذریعے ان میں محبت اور بھائی چارہ بڑھا سکتے ہیں۔ یہ آسان کام ہرگز نہیں، لیکن ایسا کام ضرور ہے جو کرنا بہت ضروری ہے۔

ہر بچے کو برابر وقت دینا

زیادہ تر والدین کی روز مرہ مصروفیات اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ ان کے پاس بچوں پر توجہ دینے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ باپ کے خیال میں بچے سنبھالنا ماں کا کام ہے اور ماں سمجھتی ہے کہ اس کی بنیادی ذمہ داری گھر کا کام کاج ہے۔ پھر اگر بچے زیادہ ہوں تو سب سے چھوٹے بچے کو زیادہ توجہ ملتی ہے۔ یوں دوسرے بچوں کو شکوہ شکایت رہتی ہے اور وہ چڑچڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر ایسا بہت عرصے تک ہو تو بچوں کے درمیان ایک دوسرے سے حسد جلن بھی پیدا ہو جاتی ہے۔

اس لیے بہت ضروری ہے کہ والدین سب بچوں کو یکساں وقت دیں۔ بلاشبہ پیشہ ورانہ اور گھریلو ذمہ داریاں اہم ہیں، لیکن یاد رکھیں کہ کوئی بھی کام بچوں سے زیادہ اہم نہیں ہوتا۔ اس لیے اپنی تمام تر مصروفیات میں سے بچوں کے لیے وقت ضرور نکالیں، جو سب کے لیے الگ اور یکساں ہونا چاہیے۔ اس وقت کو آپ کسی خاص مصروفیت سے بھی جوڑ سکتے ہیں، مثلاً مطالعہ، کوئی کھیل یا کوئی ٹی وی پروگرام وغیرہ۔ یوں بچوں میں احساسِ کمتری پیدا نہیں ہوگا اور ان کے ذہن میں یہ سوچ کبھی نہیں آئے گی کہ والدین کسی ایک بچے سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔


خاندان کے اچھے تعلقات

کہتے ہیں ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی تربیت میں مزید افراد کا کردار بھی بڑھتا جاتا ہے، خاص طور پر خاندان والوں کا۔ اس لیے ضروری ہے کہ خاندان کے ساتھ محبت اور میل جول کا تعلق رکھا جائے تاکہ بچوں میں بھی یہ عادت مستحکم ہو۔

اگر خاندانی تعلقات میں کشیدگی ہوگی تو اس کا اثر بچوں پر بھی پڑے گا اور بڑوں کو ایک دوسرے سے لڑتا دیکھ کر ان کے اندر بھی جھگڑنے کی عادت پیدا ہو جائے گی۔

اس لیے بچوں کو عملاً دکھانے کی ضرورت ہے کہ جس طرح والدین اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ہنسی خوشی ملتے ہیں، ویسے ہی انہیں بھی اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ اچھی طرح رہنا چاہیے۔


سرِ عام ڈانٹنے سے گریز

بچے بالآخر بچے ہوتے ہیں، شرارت تو ان کی گٹھی میں پڑی ہوتی ہے۔ اس وقت سخت خفت اٹھانی پڑتی ہے جب وہ مہمانوں کے سامنے کوئی حرکت کر ڈالیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو والدین کیا کرتے ہیں؟ پہلے بچے کو گھورتے ہیں، پھر ڈانٹتے ہیں اور اس پر بھی باز نہ آئیں تو ان پر ہاتھ بھی اٹھا دیتے ہیں۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو نیا رونا دھونا تو شروع ہوگا ہی لیکن در حقیقت بچہ ڈھیٹ بن جاتا ہے۔

اس لیے بہتر یہی ہے کہ بچے کو سرِ عام نہیں ڈانٹیں بلکہ اکیلے میں سمجھائیں۔ بچوں کی آپس میں لڑائی ہو رہی ہو تو انہیں ایک دوسرے کے سامنے ڈانٹنے یا مارنے سے گریز کریں۔ اس سے بچوں میں بھی مار پیٹ کا رجحان جنم لے سکتا ہے۔ یوں آپ کے لیے ایک نئی مصیبت کھڑی ہو جائے گی۔ اس لیے بہتر یہی ہے بچے کو الگ لے جا کر دھیمے انداز میں سمجھائیں۔ اس سے بچہ بھی سیکھے گا کہ کسی لڑائی جھگڑے کو کیسے نمٹاتے ہیں۔


بچے کی بھی مانیں

بچوں میں برابری کو بنیاد بناتے ہوئے والدین چاہتے ہیں کہ انہیں ایک جیسے کپڑے، بستے اور دیگر چیزیں دلوائیں تاکہ ان کے درمیان کوئی کسی جھگڑے کا خدشہ نہ رہے۔ لیکن یہ ‘یونیفارم’ قانون لاگو کرنا ضروری نہیں۔ یکساں معیار کی چیزیں دلائیں لیکن بچوں کو اپنی پسند کے رنگ کا انتخاب ضرور دیں۔ بچوں کی پسند کی حوصلہ افزائی کریں کیونکہ اس سے ان میں فیصلہ سازی کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ پھر ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو تسلیم کرنے سے ان میں برداشت کا مادّہ بھی پیدا ہوگا۔ ان میں انفرادیت بھی پیدا ہوگی اور ساتھ ہی بلا سوچے سمجھے دوسروں کی نقالی کرنے کی بُری عادت سے چھٹکارا بھی مل سکتا ہے۔

بچوں کے مشاغل کے حوالے سے بھی یہی رویہ اپنائیں۔ ایک بچے کو ڈرائنگ کا شوق ہے اور دوسرے کو کھیلنے کودنے کا تو دونوں کو سراہیں، بجائے اس کے کہ ان پر اپنی مرضی کو تھوپا جائے۔ اللہ نے ہر بچے کو الگ صلاحیت کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہے، اس لیے انہیں اپنے منفرد مشاغل رکھنے دیں۔ اس سے وہ بڑے ہو کر آپ کے محتاج ہونے کے بجائے جلد ہی خود اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے۔


تقابل سے گریز

ہر بچہ منفرد ہے، مختلف ہے، اس لیے اس کا کسی سے تقابل ہر گز نہ کریں۔ یوں ان میں حسد بھی پیدا ہوتا ہے اور کسی کے مقابلے میں احساسِ کمتری بھی۔ نہ اپنے بچوں کا تقابل ایک دوسرے سے کریں اور نہ ہی کسی دوسرے بچے سے۔ یاد رکھیں کہ ہر بچے کے سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت یکساں نہیں ہوتی، اس لیے ان پر بہت زیادہ بوجھ ڈالنا مناسب نہیں جیسا کہ پڑھائی کے حوالے سے۔

سلطنتِ عثمانیہ کے اسکولوں میں ہر بچے کو اس کی صلاحیت کی بنیاد پر پڑھایا جاتا تھا اور ہر بچے کا نصاب الگ تھا۔ اسکول کا نعرہ اس کی دیوار پر لکھا ہوتا تھا کہ

یہاں کسی مچھلی کو اُڑنے پر مجبور نہيں کیا جائے اور کسی پرندے سے زبردستی تیراکی نہیں کروائی جائے گی۔

جس طرح والدین بچوں کے بہتر سے بہتر کھلانے اور پہنانے کا خیال رکھتے ہیں، بالکل ویسے ہی ان کی تربیت پر توجہ دینا بھی ضروری ہے۔ باہمی محبت اور الفت پیدا کر کے آپ زندگی بھر کے لیے ان کی زندگی میں رونق لا سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

وہ شاہکار جو شاید اگلی نسل نہ دیکھ سکے

[وڈیوز] تجارت کے لیے دنیا کے اہم بحری راستے – قسط 1