میں

گزشتہ 100 سالوں کی عظیم نو مسلم شخصیات – قسط 2

گزشتہ 100 سال انسانی تاریخ کے ہنگامہ خیز ترین سالوں میں شمار ہوں گے۔ ایک صدی پہلے اس وقت دنیا پہلی جنگِ عظیم سے نکل چکی تھی لیکن آگے ایک اور دوسرا دور جنم لینے والا تھا۔ ایسا دور جس میں "عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے” نظر آنے لگے۔ لیکن جیسے جیسے باہر کی دنیا سجتی، سنورتی، بڑھتی اور چمکتی چلی گئی، اندر کی دنیا میں ویرانیوں نے ڈیرے ڈال لیے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جتنی مقبولیت پچھلی ایک صدی کے دوران حاصل کی ہو، ماضی میں کبھی نہیں حاصل کی ہوگی۔ آج بھی دنیا کے کسی بھی دوسرے مذہب کے مقابلے میں زیادہ لوگ اسلام کو قبول کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ کبھی رکا نہیں، تھما نہیں۔

اسلام کے سایہ رحمت میں جگہ پانے والے پچھلے 100 سال کے عظیم ترین افراد کے بارے میں ہم نے ایک سلسلے کا آغاز کیا تھا، جس کی پہلی قسط میں آپ عظیم باکسر محمد علی، نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کرنے والے میلکم ایکس اور شاہراہِ مکہ کے مسافر محمد اسد کے بارے میں پڑھ ہی چکے ہیں۔

آج ہم اس سلسلے کی دوسری قسط میں ہم معروف مترجمِ قرآن محمد پکتھال، پاپ اسٹار سے مبلغ بننے والے یوسف اسلام اور پاکستان کے معروف عالمِ دین سید ابو الاعلیٰ مودودی کی منہ بولی بیٹی مریم جمیلہ کے بارے میں بتائیں گے۔ تو آئیے شروعات کرتے ہیں محمد مارماڈیوک پکتھال سے۔

محمد پکتھال

جب تک انگریزی زبان زندہ رہے گی، پکتھال کا نام امر رہے گا۔ آج ان کے انگریزی ترجمۂ قرآن کو چھپے ہوئے 90 سال سے زیادہ ہو چکے ہیں لیکن اب بھی یہ دنیا کے مقبول ترین تراجم میں شمار ہوتا ہے۔

پکتھال ایک مشہور ناول نگار تھے اور برطانیہ کے ادبی حلقوں میں خاصے معروف تھے۔ اچانک 1917ء میں مسلم لٹریری سوسائٹی کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔

آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلی قسط میں ہم نے علامہ محمد اسد کے دل پر اسلام کی پہلی چوٹ فلسطین میں ہی پڑی تھی۔ محمد پکتھال کی داستان بھی تقریباً یہی ہے۔ ان کے ایک دوست فلسطین میں برطانوی سفارت خانے میں ملازم تھے۔ ان کے ساتھ گھومنے پھرنے کے لیے وہ فلسطین آئے اور پھر فلسطین ہی نہیں بلکہ شام، مصر، عراق اور ترکی میں بھی سیر و سیاحت کی، عربی زبان سیکھی اور یہی وجہ ہے کہ مسلم حلقوں میں قبولِ اسلام سے پہلے بھی آپ مقبول تھے۔ اس لیے مسلم لٹریری سوسائٹی کے اجلاس سے خطاب کے لیے بھی آئے تھے لیکن یہاں انہوں نے اچانک اسلام قبول کرنے کا اعلان کر کے سب کو حیران کر دیا۔

پھر یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پکتھال نے اپنا ترجمہ قرآن ہندوستان میں مکمل کیا تھا۔ وہ 1920ء میں ایک جریدے کی ادارت سنبھالنے کے لیے ہندوستان منتقل ہو گئے تھے۔ بعد ازاں نظام حیدر آباد کی زیر کفالت آپ نے قرآن مجید کا ترجمہ مکمل کیا۔ میں انتقال سے ایک سال قبل 1935ء میں ہندوستان سے واپس انگلینڈ چلے گئے۔ یعنی اپنی زندگی کی آخری ڈیڑھ قیمتی دہائی انہوں نے سرزمین ہند و پاک میں گزاری۔

محمد پکتھال کی آخری آرام گاہ

پکتھال کے ترجمۂ قرآن کی خاص بات یہ ہے کہ تب تک قرآن مجید کے جتنے بھی انگریزی تراجم ہوئے تھے، وہ مستشرقین کے تھے۔ مثلاً جارج سیل کا ترجمہ قرآن سب سے مشہور تھا لیکن اس میں بڑے مسئلے تھے۔ خود پکتھال نے اپنے ترجمہ قرآن کے آغاز میں لکھا ہے کہ یہ پہلا انگریزی ترجمہ ہے جو ایسے انگریز نے کیا ہے جو خود مسلمان ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اصل قرآن تو بے مثال ہے کیونکہ اسے سن کر لوگوں پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔ یہ تو محض قرآن کے مفہوم کو انگریزی میں پیش کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔

مریم جمیلہ کہ جن کا ذکر ہم آگے کریں گے، اس ترجمے کے بارے میں کہتی تھیں کہ مجھے پکتھال کے پائے کا کوئی ترجمہ قرآن نہیں مل سکا۔ خاص طور پر انہوں نے اللہ کے لیے "گاڈ” کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے ہر جگہ "اللہ” ہی کا استعمال کیا ہے جس سے بڑا تاثر پیدا ہوا۔


یوسف اسلام

آج کی دوسری عظیم نو مسلم شخصیت کا تعلق بھی برطانیہ سے ہی ہے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ پچھلے 100 سالوں کی وہ کون سی شخصیت نے جو شہرت کی بلندیوں کو چھو رہی تھی لیکن اس نے اسلام کی خاطر سب کچھ چھوڑ دیا؟ تو اس سوال کا جواب یہی شخصیت ہوگی، کیٹ اسٹیونز، اسلامی نام یوسف اسلام۔

ان کا پہلا البم 1967ء میں برطانیہ میں چارٹس میں ٹاپ ٹین میں آیا پھر 1970ء سے 1972ء تک ہر سال آنے والا نیا البم ریکارڈ توڑتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ 1977ء میں انہوں نے اسلام قبول کر کے گلوکاری چھوڑ دی۔

بتایا جاتا ہے کہ وہ مراکش کے دورے میں اذان کی آواز سن کر بہت متاثر ہوئے تھے۔ لیکن یہ 1976ء کا واقعہ ہے جب وہ امریکا میں ڈوبتے ڈوبتے بچے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ میں نے دعا کی کہ اے خدا! اگر تو آج مجھے بچا لے تو میں زندگی کو تیرے لیے وقف کروں گا۔ اچانک ایک لہر ابھری اور وہ ساحل پر پہنچ گئی۔ موت کا اتنا قریب سے سامنا کرنے کے بعد انہوں نے مختلف مذاہب کا مطالعہ شروع کیا اور اسی دوران ان کے بھائی ڈیوڈ نے انہیں قرآن مجید تحفے میں دیا جو وہ فلسطین سے لائے تھے۔

مطالعہ قرآن نے انہیں اپنے سحر میں جکڑ لیا اور وہ پھر اس سے نکل نہیں پائے۔ یہاں تک کہ 1978ء میں اسلام قبول کر لیا۔ آپ کو سورۂ یوسف سے ایک خاص محبت پیدا ہو گئی تھی کیونکہ وہ شوبز کی صنعت سے آئے تھے اور وہاں کے ماحول کو انہوں نے اس سورت سے بخوبی سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے لیے یوسف کا نام ہی پسند کیا۔

قبولِ اسلام کے بعد انہوں نے موسیقی کو خیر باد کہہ دیا لیکن پھر آہستہ آہستہ اس میدان میں واپس آئے۔ وہ قائل ہو گئے تھے کہ موسیقی کا دعوتی اور تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

کیٹ اسٹیونز، جوانی میں

مریم جمیلہ

اب ذرا ان خاتون کی طرف چلیں کہ جن کی داستان بہت عجیب بھی ہے اور متاثر کُن بھی۔ امریکا سے تعلق رکھنے والی یہودی خاندان کی مارگریٹ مارکس۔ جن کا اسلام سے پہلا تعارف کالج میں تعلیم کے دوران ہوا لیکن وہ اسی دوران بیمار پڑ گئیں۔ فراغت کے ایام میں انہوں نے مختلف مذاہب کا مطالعہ شروع کیا اور ذہن میں کئی سوال ابھرنے لگے۔ ان سوالات کے اطمینان بخش جوابات نہ ملنے کے بعد غیر یقینی کیفیت میں علامہ محمد اسد کی کتاب "روڈ ٹُو مکہ” ان کے ہاتھ لگی۔ جس کے بعد ان کے ترجمۂ قرآن نے انہیں حقیقی دن سے روشناس کروایا۔

انہوں نے اُس زمانے کے کئی علما سے رابطے کیے کہ جن میں ڈاکٹر حمید اللہ بھی شامل تھے جو فرانس میں رہتے تھے۔ لیکن جس عالم سے رابطے نے ان کی زندگی بدل دی وہ پاکستان کے سید ابو الاعلیٰ مودودی تھے۔ ان کا سید مودودی سے تعارف ایک رسالے میں چھپنے والے مضمون سے ہوا، جس نے مارگریٹ کے حیات بعد الموت کے حوالے سے کئی نظریات واضح کیے۔

تب انہوں نے سید مودودی سے بذریعہ خط و کتابت رابطہ کیا اور جواب ملنے کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا۔ مودودی صاحب نے انہیں باقاعدہ اسلام قبول کرنے اور کسی مسلمان ملک کی طرف ہجرت کرنے کا مشورہ دیا بلکہ پاکستان آنے کی دعوت بھی دی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ انہیں کسی عالم نے اپنے ملک آنے کی دعوت دی ہو۔ 1961ء میں انہوں نے نیو یارک میں باقاعدہ اسلام قبول کیا اور مارگریٹ مارکس سے بدل کے اپنا نام مریم جمیلہ رکھ دیا۔

مریم اگلے ہی سال پاکستان بھی آ گئیں جہاں ان کی ملاقات سید مودودی سے ہوئی۔ انہوں نے باقاعدہ پردہ کرنا شروع کیا، مودودی صاحب کی جماعت اسلامی کے ایک رکن محمد یوسف خان سے شادی بھی کی جن سے ان کے پانچ بچے ہوئے۔ اردو سیکھی، پنجابی سیکھی، گویا پاکستان کے مزاج میں مکمل طور پر ڈھل گئیں۔

مریم جمیلہ کا اصل کارنامہ ان کی وہ دو درجن سے زیادہ کتابیں ہیں جو زیادہ تر مغرب اور اسلام کے موضوع پر لکھیں۔ ان کتابوں کے اردو کے علاوہ فارسی، ترکی، بنگالی بلکہ انڈونیشی زبان میں بھی ترجمے ہو چکے ہیں۔

ان کتابوں میں اسلام اور جدیدیت، اسلام اور استشراق، اسلام اور جدید مسلمان خاتون، اسلام بمقابلہ مغرب، اسلام بمقابلہ اہل کتاب، امریکا میں بچپن اور جوانی کی یادیں، مغربی تہذیب کی خود مذمتی، اخلاقی زوال اور اس کے نتائج کا جامع مطالعہ، مغربی سامراجیت مسلمانوں کے لیے خطرہ اور میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ مشہور ہیں۔

بدھ 31 اکتوبر 2012ء کو مریم جمیلہ نے لاہور میں انتقال کیا اور یہیں آسودۂ خاک ہوئیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

کہانی نئے پرانے کی: ملکوں اور شہروں کے ناموں کی دلچسپ داستان

کیا آپ ان چیزوں کو پہچانتے ہیں؟