میں

سلطنتِ عثمانیہ کی تاریخ کے چند منفرد پہلو

تاریخ کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں کیا آتا ہے؟ جنگ و جدل، آگ اور خون کا کھیل، لاشوں کے ڈھیر، لوٹی گئی دولت کے انبار، شہروں کی تباہی و بربادی اور کچھ ایسے ہی بھیانک مناظر ہوتے ہیں جو ہماری نظروں کے سامنے گھوم جاتے ہیں لیکن کیا تاریخ صرف لڑائی بھڑائی کا نام ہے؟ افسوس کی بات ہے کہ تاریخ کو کچھ اِس طرح پڑھایا اور سمجھایا جاتا ہے جیسے یہ انسانوں کی نہیں بلکہ وحشی جانوروں کی تاریخ ہے، جنہیں لڑنے بھڑنے سے ہی فرصت نہیں۔

آخر تاریخ کا بیان کرتے ہوئے اس پر بات کیوں نہیں ہوتی کہ کسی زمانے میں لوگوں کا رہن سہن کیسا تھا؟ ان کی عام زندگی، ان کے معمولات، طرزِ تعمیر، آداب و اخلاق، اس بارے میں بتایا اور پڑھایا جاتا ہے۔ اب سلطنتِ عثمانیہ ہی کے موضوع کو لے لیجیے۔ پچھلے چند سالوں میں سلطنتِ عثمانیہ کے بارے میں اردو میں بہت سا مواد سامنے آیا ہے۔ یوٹیوب پر ہی ہزاروں وڈیوز آئی ہوں گی، لیکن سب کا موضوع ایک ہی ہے، جنگ، جنگ اور صرف جنگ۔ یہی وجہ ہے آج ہم آپ کو سلطنتِ عثمانیہ کی تاریخ کا ایک دوسرا پہلو دکھانے جا رہے ہیں، ایک انسانی پہلو جس میں آپ کو عام زندگی نظر آئے گی، ہمدردی اور خیر کے جذبات دکھائی دیں گے۔ اس کے علاوہ کچھ ایسی باتیں بھی جن کو سُن کر آپ کو ضرور حیرت ہوگی۔ تو آئیے شروعات کرتے ہیں:

صدقہ تاشی

موجودہ ترکی کی ثقافت پر سلجوق اور عثمانی کلچر کی بہت گہری چھاپ ہے۔ اس میں خیر اور خدمتِ خلق کا جذبہ سب سے نمایاں ہے۔ صدیوں سے اس علاقے میں غریبوں کے لیے بہت کام کیا گیا ہے، جس کے لیے ایک عجیب و غریب طریقہ بھی رائج تھا، جسے "صدقہ تاشی” کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے صدقے کا پتھر۔ یہ مختلف مقامات پر لگایا گیا ایک ستون ہوتا تھا جس میں ایک سوراخ کیا جاتا تھا۔ امیر لوگ اس سوراخ میں صدقہ ڈال دیا کرتے تھے۔ جب کسی غریب کو پیسے درکار ہوتے تھے تو وہ اس ستون میں ہاتھ ڈال کر اپنی ضرورت کے مطابق رقم لے لیتا اور باقی چھوڑ دیتا تھا۔ اس ستون کو کچھ یوں بنایا جاتا تھا کہ دُور سے دیکھنے والے کو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ یہ شخص پیسے ڈال رہا ہے یا نکال رہا ہے۔ یوں ضرورت مندوں کی سفید پوشی کا بھرم قائم رہتا اور وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے اور شرمندگی اٹھانے سے بچ جاتے تھے۔ کیا دنیا میں ایسی کوئی دوسری مثال ہے؟


ذمم دفتر

عثمانیوں کی ایک اور منفرد عادت تھی مقروض لوگوں کے قرض ادا کرنا۔ خاص طور پر رمضان شروع ہونے پر صاحبِ ثروت لوگ قریبی دکان پر موجود کھاتے سے پتہ چلاتے کہ کس نے عرصے سے اپنا قرضہ ادا نہیں کیا۔ پھر ان غریبوں کا ادھار وہ اپنی جیب سے ادا کرتے۔ اس کھاتے کو "ذمم دفتر” کہتے تھے۔


شادیوں میں مدد

پھر جو لوگ شادی کے لیے مالی حیثیت نہیں رکھتے تھے، ان کی امداد کے لیے بھی ایک سرکاری ادارہ قائم تھا جو نئے جوڑے کو بنیادی ضرورت کی چیزیں خریدنے میں مدد دیتا تھا۔


شفا خانے

ادرنہ کا مشہور ہسپتال

عثمانی سلطنت میں ہسپتالوں کے بھی کئی نام تھے، دار الشفا، شفا خانہ، بیمارستان، دار الصحت، دار العافیہ اور دار الطب۔ لیکن سن 1488ء سلطان بایزید دوم نے ادرنہ میں ایک ایسا دار الشفا بنایا، جس کا مقصد ان مریضوں کا علاج کرنا تھا جو دائمی امراض سے دوچار ہوتے تھے۔ یہ ذہنی اور نفسیاتی امراض رکھنے والے مریضوں کے علاج کے لیے خاص جگہ بن گیا۔ اسے ہم دنیا کے ابتدائی نفسیاتی ہسپتالوں میں سے ایک کہہ سکتے ہیں۔


تاریخی امداد

عثمانی سلطنت میں رہنے والے یہودیوں کی ایک تصویر

ایک عثمانی کہاوت ہے کہ ضرورت مند چاہے آپ کا دشمن ہی کیوں نہ ہو، اس کی مدد ضرور کرنی چاہیے۔ اسی لیے سلطنتِ عثمانیہ نے اپنے مشکل ترین دور میں بھی کئی ملکوں کی مدد کی ہے، جس کی ایک مثال تو سقوطِ غرناطہ کے بعد نکالے گئے یہودیوں کی ہے۔ 1492ء میں جب اسپین میں مسلمانوں کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا تو مسلمانوں سے زیادہ شامت یہودیوں کی آئی۔ زیادہ تر مسلمان ہجرت کر کے قریبی مسلم علاقوں کی طرف چلے گئے لیکن یہودیوں کے لیے بہت مشکل تھی کہ وہ کہاں جائیں۔ ان کو جائے پناہ سلطنتِ عثمانیہ میں ہی ملی۔ 16 ویں صدی کے اوائل میں دنیا میں سب سے زیادہ یہودی سلطنتِ عثمانیہ میں ہی تھے۔

پھر 1845ء میں آئرلینڈ میں ایک عظیم قحط آیا، جس سے لاکھوں لوگ مارے گئے۔ جب عثمانی سلطان عبد المجید اوّل کو یہ خبر ملی تو انہوں نے آئرلینڈ کی مدد کے لیے 10 ہزار پونڈ عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب یہ خبر برطانیہ پہنچی تو ملکہ وکٹوریا نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ آپ صرف ایک ہزار پونڈز دیں۔ ایسا انہوں نے اس لیے کیا کیونکہ انہوں نے خود صرف 2 ہزار پونڈز بھیجے تھے۔ اس لیے سلطان نے بھیجے تو 1 ہزار پونڈز، لیکن ساتھ ہی غیر علانیہ طور پر خوراک اور اجناس سے لدے پانچ بحری جہاز بھی بھیج دیے۔ برطانیہ نے ان جہازوں کو روکنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اُس زمانے کے 10 ہزار پونڈز آج کے حساب سے 8 لاکھ پونڈز یعنی 17 لاکھ امریکی ڈالرز بنتے ہیں۔


انسان نہیں جانور بھی دائرۂ رحمت میں

عثمانی معاشرے میں خیر و فلاح کا دائرہ محض انسانوں تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ جانور بھی اس میں شامل تھے۔ مثلاً 15 ویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ میں ایسے کئی ادارے قائم ہوئے جو آوارہ کتوں اور دیگر جانوروں کو خوراک فراہم کرنے کا کام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ سخت موسم یا خشک سالی میں جنگلی جانوروں کے لیے گوشت، اناج، نمک، پرندوں کی خوراک اور پانی کی بھاری مقدار بھی مختلف مقامات پر رکھی جاتی تھی۔ جانوروں کے میل ہونے کے موسم میں ان کے شکار پر پابندی ہوتی تھی جبکہ حاملہ جانوروں، ان کے بچوں اور ہجرت کرنے والے پرندوں کا شکار بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

استنبول شہر میں آوارہ کتوں کو خوراک کی فراہمی، خاکہ 1902ء

آپ آج استنبول یا ترکی کے کسی بھی شہر میں جائیں آپ کو بڑی عمارتوں میں ایسے چھوٹے چھوٹے گھر بنے نظر آئیں گے۔ خاص طور پر مسجدوں، مدرسوں اور شفا خانوں میں۔ یہ پرندوں کے لیے بنائے جاتے تھے اور آج بھی یہ روایت جاری ہے۔

پرندوں کے گھر جو آج بھی جا بجا نظر آتے ہیں

شجر کاری اور گرمی کے موسم میں ٹھنڈا پانی اور برف تقسیم کرنے والے ادارے بھی کام کرتے تھے۔ پینے کے پانی کی سبیلیں تو اُس زمانے میں عام تھیں اور آج بھی ترکی کے ہر شہر میں سلطنت کے زمانے کی سبیلیں عام نظر آتی ہیں۔اس کے علاوہ دیواروں کی صفائی کے لیے بھی ایک ادارہ موجود تھا جو تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، مسجدوں اور اہم راستوں کے ارد گرد کی دیواروں کو صاف کرنے کا کام کرتا تھا۔

استنبول میں پانی کی ایک سبیل

دنیا کو ملنے والے مشہور عثمانی تحفے

یہ تو خدمتِ خلق کے کام ہو گئے لیکن عثمانیوں کی کچھ کم مشہور خدمات بھی ہیں، مثلاً کافی کو آج جو مقبولیت حاصل ہے اس میں عثمانیوں کا بڑا کردار ہے۔ ویسے تو کافی عرب سے آئی لیکن اسے مغرب میں عثمانیوں نے ہی متعارف کروایا تھا۔ آج ہم برصغیر میں کافی کو انگریزوں کی چائے سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک زمانے میں پوپ اور کئی یورپی بادشاہ کافی کو ہاتھ تک نہ لگاتے تھے کہ یہ اسلامی مشروب ہے۔

ترکی کافی

پھر ترکوں کا کافی پیش کرنے کا انداز بھی بڑا منفرد تھا اور اس میں ایک حکمت بھی پوشیدہ تھی۔ جب مہمان آتا تو سب سے پہلے اسے پینے کا پانی، کافی اور ساتھ ہی کچھ میٹھا پیش کیا جاتا۔ اگر مہمان پہلے کافی پیتا تو اس کا مطلب ہے اسے بھوک نہیں ہے اور وہ اس کے بعد میٹھا کھا سکتا ہے لیکن اگر وہ پہلے پانی پیتا تو اس کا مطلب ہوتا کہ اسے بھوک لگی ہے، اس لیے اس کے کافی پینے تک میزبان گھر میں کھانا بنوانے کا حکم دے دیتا تھا۔

اور صرف کافی ہی نہیں بلکہ عثمانیوں نے یورپ میں اور بھی بہت کچھ متعارف کروایا۔ مثلاً گلِ لالہ کو، جسے انگریزی میں ٹیولپ کہتے ہیں۔ آج یہ پھول دیکھتے ہی سب کے ذہن میں ہالینڈ آتا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہالینڈ میں گلِ لالہ اصل میں سلطنتِ عثمانیہ سے ہی آیا تھا۔ ترک یہ پھول وسط ایشیا کے میدانوں لائے تھے اور 1000ء میں اس کی باقاعدہ کاشت کا آغاز کیا۔ یہاں سے یہ پھول 16 ویں صدی کے آخر میں ہالینڈ پہنچا اور یہاں کے امیر طبقے میں مقبول ہو گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہاں گلِ لالہ کے پہلے 1550 پودے استنبول سے لائے گئے تھے۔

ٹیولپ یعنی گلِ لالہ

یہی نہیں موسیقی کی دنیا کا ایک بڑا نام زلدیان (Zildjian) بھی دراصل ترکی سے نکلا۔ یہ ادارہ 1621ء میں عثمانی دارالحکومت استنبول میں بنایا گیا تھا اور اِس کا کام تھا سلطنتِ عثمانیہ کے فوجی بینڈ کے لیے آلات بنانا۔ 1623ء میں اسے شہر کے نواح میں اپنا کاروبار کرنے کی اجازت بھی ملی۔ 19 ویں صدی تک یہ ادارہ استنبول ہی میں قائم رہا۔ آج یہ امریکا میں کام کرتا ہے اور دنیا میں موسیقی کے آلات بنانے والے قدیم ترین اداروں میں سے ایک ہے جسے 400 سال ہو چکے ہیں۔


چند منفرد پہلو

موضوع کسی اور طرف نکل رہا ہے، ذرا واپس آتے ہیں سلطنت عثمانیہ کی عام زندگی کے کچھ عجیب پہلوؤں کی طرف۔ مثلاً یہ دیکھیں، اس دروازے پر دو کنڈے لگے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ایک بڑا، ایک چھوٹا۔ یہ اس لیے کہ اگر دروازے پر کوئی مرد آئے تو وہ بڑا کنڈا کھڑکائے تاکہ گھر میں موجود افراد کو پتہ چل جائے کہ باہر دروازے پر کوئی مرد آیا ہے اور اندر سے مرد ہی باہر آئے۔ لیکن خواتین چھوٹی والی کنڈی کھڑکائیں، جس سے اہلِ خانہ سمجھ جائیں گے کہ باہر کوئی خاتون آئی ہیں اور ان کا کوئی مرد نہیں بلکہ خاتونِ خانہ دروازے پر آئیں گی۔

عثمانی کلچر کا ایک عجیب پہلو قبروں کے کتبے بھی ہے۔ کتبہ ہی بتا دیتا تھا کہ یہ قبر کس کی ہے۔ مثلاً کسی قبر کے کتبے پر اگر گلاب کا ٹوٹا ہوا پھول بنا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ یہ کسی نوجوان کنواری لڑکی کی قبر ہے۔ اگر کسی کتبے پر پگڑی بنی ہو تو اس کا مطلب ہے یہ کسی اعلیٰ سرکاری عہدیدار کی قبر ہے جبکہ ایک عجیب و غریب کتبہ یہ بھی ہے۔ یہ ایک حاملہ خاتون کی قبر ہے اور اس کے کتبے پر ایک چھوٹا سا کتبہ بھی بنا ہوا ہے، جو اس بچے کا ہے، جو ماں کے ساتھ ہی مر گیا۔

کہا جاتا ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ میں سلاٹر ہاؤس یعنی مذبح خانوں میں کام کرنے والے قصابوں سے کچھ عرصے کے لیے مالی کا کام بھی لیا جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ روزانہ جانور ذبح کر کر کے وہ سخت دل نہ بن جائیں اور پھولوں، پودوں اور فطرت کے قریب رہ کر ان کے دلوں کی سختی کم ہو جائے اور رحم دلی کے جذبات پیدا ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دنیا کے طاقتور اور کمزور ترین پاسپورٹس

کیا جہاز میں پیدا ہونے والا بچہ ساری عمر مفت فضائی سفر کرتا ہے؟