اگر ہم آپ سے پوچھیں کہ سری لنکا کا پرانا نام کیا ہے؟ یا ایتھوپیا کو پہلے کیا کہا جاتا تھا؟ تو شاید زیادہ تر لوگوں کو پتہ بھی نہ ہو کیونکہ یہ نام اب بالکل عام ہیں۔ تو ہو سکتا ہے کچھ عرصے بعد لوگوں کو پتہ بھی نہ ہو کہ ترکی کو کبھی ترکی کہا جاتا تھا۔
اصل میں ترکی نے اپنا نام بدل کر "ترکیہ” کر دیا ہے، اور اقوامِ متحدہ سے بھی کہہ دیا ہے کہ آئندہ اسے اسی نام سے پکارا جائے اور خط بھی لکھ دیا ہے تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ خیر، تفنّن برطرف۔
ترک صدر رجب طیب ارطوغان کا کہنا ہے کہ ترکیہ کا لفظ ترک ثقافت اور اقدار کی بہتر نمائندگی کرتا ہے۔
بہرحال، یہ تبدیلی تو آہستہ آہستہ آئے گی، فوری طور پر تو نہ سیلون کی جگہ سری لنکا کا نام زبان پر چڑھا تھا اور نہ ہی لوگوں نے برما کو میانمار کہنا شروع کر دیا ہے۔
تو ذہن میں آتا ہے کہ آخر اب نام بدلنے کی کیا پڑی تھی؟ ثقافتی و لسانی لحاظ سے زیادہ مناسب نام ہونے کے علاوہ ترکی کے نام بدلنے کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ ترکی کو انگریزی میں ٹرکی کہا جاتا ہے اور یہی نام ایک پرندے کا بھی ہے۔ بلکہ ڈکشنری میں آپ دیکھیں تو ٹرکی اُس چیز کو بھی کہتے ہیں جو بُری طرح ناکام ہو اور کسی بے وقوف اور احمق آدمی کو بھی ٹرکی کہا جاتا ہے۔ تو نام بدلنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ٹرکی پر اچھے خاصے لطیفے ہیں۔
خیر، یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی ملک نے اپنا نام بدلا ہو۔ ماضی میں ہمیں کئی مثالیں ملتی ہیں بلکہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، یورپ کے ملک چیک جمہوریہ نے اپنا نام بدل کر چیکیا کیا تھا۔ اصل میں یہاں ایک ملک تھا، جس کا نام تھا چیکوسلوواکیا۔ 1993ء میں اس کے دو حصے ہو گئے، جن میں سے ایک سلوواکیا بنا اور دوسرے نے اپنا نام چیک جمہوریہ رکھا۔ اب اسی نے اپنا نام بدل کر چھوٹا کر لیا ہے اور سلوواکیا کی طرح چیکیا بن گیا ہے۔
ویسے اگر پچھلی ایک صدی میں دیکھیں تو جہاں دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، وہیں نام بھی بہت بدلے ہیں۔ کوئی 90 سال پہلے مملکتِ حجاز و نجد نے اپنا نام بدل کر سعودی عرب کیا تھا۔ آج آپ کسی سے بھی پوچھ لیں کہ مملکتِ حجاز و نجد کہاں ہے تو کوئی نہیں سمجھے گا۔ لیکن سعودی عرب کو بچہ بچہ جانتا ہے۔
اسی طرح ایران ہے، جس نے 1935ء میں اپنا نام فارس سے بدل کر ایران رکھا تھا۔ فارس ایسا نام تھا جو صدیوں سے بولا جاتا تھا، لیکن ایسا غائب ہوا کہ آج زیادہ تر لوگوں کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ فارس کس بلا کا نام ہے۔
پھر 1941ء میں حبشہ (Abyssinia) نے اپنا نام ایتھوپیا کیا۔ ویسے تو ایتھوپیا کا نام بھی اب دنیا بھر میں کافی جانا جاتا ہے، لیکن حبشہ کا نام کم از کم مسلمانوں میں تو ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اسلام کی آمد کے بعد جب مسلمانوں پر ظلم بہت بڑھ گیا تو حضور نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر مسلمانوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی۔ یہ ملک مسلمانوں کی پہلی جائے پناہ بنا تھا۔
1945ء میں انڈونیشیا نے بھی اپنا نام تبدیل کیا تھا۔ یہ ملک ہالینڈ کے قبضے میں تھا اور اسے ڈچ ایسٹ انڈیز کہا جاتا تھا لیکن پھر اصل نام انڈونیشیا رکھا گیا۔
ویسے ہالینڈ بھی اپنا نام بدل چکا ہے۔ 2019ء میں ملک نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے اصل نام ‘دی نیدرلینڈز’ کے ساتھ ہی آگے بڑھے گا۔ اب اسے نیدرلینڈز ہی کہا جاتا ہے۔
ہالینڈ اور اس جیسی دوسری یورپی طاقتوں نے دنیا بھر پر قبضہ تو کیا ہی، لیکن اُن سے اپنی شناخت تک چھین لی تھی۔ خاص طور پر افریقہ میں تو ایسا بہت زیادہ ہوا۔ کینیا اور یوگینڈا کو برٹش ایسٹ افریقہ کا نام دیا گیا جو بعد میں الگ الگ ملک بنے اور اپنا جداگانہ نام رکھا۔ پھر جہاں سے جو چیز لوٹی گئی، اسے اُسی کا نام دیا گیا، کوئی آئیوری کوسٹ بنا تو کوئی گولڈ کوسٹ۔ آئیوری کوسٹ تو آج تک موجود ہے لیکن گولڈ کوسٹ نے 1957ء میں اپنا نام گھانا رکھ لیا۔
کچھ ملکوں نے اپنے نام چھوٹے کر لیے، جیسا کہ 1970ء میں مسقط و عمان نے اپنا نام صرف عمان رکھ لیا۔
پھر 1971ء میں عوامی جمہوریہ کانگو تھا، جس نے اپنا نام بدل کر زائر کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1997ء میں ایک مرتبہ پھر نام بدل دیا گیا اور واپس عوامی جمہوریہ کانگو کر دیا گیا۔ اب انتظار کیجیے کہ کہیں دوبارہ زائر نہ کر دیں۔
خیر، آگے بڑھتے ہیں اور 1972ء میں آتے ہیں، جب سیلون نے اپنا نام بدل کر سری لنکا کیا۔ اگر آپ کو پرانی کہانیاں پڑھنے کا شوق ہے تو آپ نے ایک نام ضرور پڑھا ہوگا، جزیرہ سراندیپ۔ یہ سراندیپ ہی اصل میں سری لنکا تھا، جسے سیلون کہا جاتا تھا۔ 1972ء میں سیلون نے اپنا نام بدل کر سری لنکا کر دیا۔
افریقہ کا ایک ملک ہے زمبابوے، یہ کبھی روڈیشیا کہلاتا تھا۔ 1980ء میں اس نے اپنا نام بدل کر زمبابوے کر لیا۔
اسی طرح برما بھی ہے۔ جس کا نام 1989ء میں برما سے بدل کر میانمار کر دیا گیا۔
اسی کے قریب ایک دوسرا ملک ہے جسے کمپوچیا کہا جاتا تھا، اس نے 1991ء میں اپنا نام ذرا سا تبدیل کر کے کمبوڈیا کیا۔
ترکی سے پہلے آخری ملک جس نے اپنا نام بدلا، افریقہ کا ایک چھوٹا سا ملک سوازی لینڈ ہے، جس نے 2018ء اپنا نام بدل کر اسواتینی (Eswatini) رکھ لیا۔
ملکوں کے علاوہ کئی شہروں کے نام بھی ایسے ہیں جو ماضی میں کچھ اور تھے۔ ان کی تعداد تو بلامبالغہ سینکڑوں میں ہوگی۔ پاکستان ہی میں دیکھ لیں، یہاں لائل پور کو فیصل آباد بنتے دیکھا، منٹگمری ایک مرتبہ پھر ساہیوال بنا، کیمبل پور کا پرانا نام اٹک بحال کیا گیا اور فورٹ سنڈیمن بھی واپس ژوب کیا گیا۔ اس کے علاوہ بہت سے نئے نام بھی سامنے آئے، جیسا کہ 2008ء میں ضلع نواب شاہ کو شہید بے نظیر آباد کا نام دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ 2009ء میں شمالی علاقہ جات کو گلگت بلتستان کا نام دیا گیا اور اگلے ہی سال 2010ء میں شمالی مغربی سرحدی صوبے کو خیبر پختونخوا قرار دیا گیا۔
بھارت میں بھی ایسی کئی مثالیں ہیں۔ بمبئی ممبئی بن گیا، مدراس کو چنئی کا نام دیا گیا اور کلکتہ کولکاتا بن گیا۔ کئی ناموں نے تو بڑے تنازع بھی پیدا کیے، خاص طور پر مسلم شناخت رکھنے والے نام بڑی تیزی سے تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ مثلاً الہ آباد کو پریاگ راج کا نام دے دیا گیا جبکہ مصطفیٰ آباد رام پور بن گیا۔
ناموں کا تنازع صرف ہندوستان تک محدود نہیں۔ خلیج ہی کو دیکھ لیں۔ اسے عرب ملک خلیجِ عرب کہتے ہیں جبکہ ایران اور باقی دنیا خلیجِ فارس کہتی ہے۔ یہ ایران اور عرب ملکوں کے لیے بہت ہی نازک معاملہ ہے۔
پھر ایسا ہی ایک ہنگامہ یورپ میں بھی کھڑا ہوا۔ مشرقی یورپ کا ایک ملک تھا یوگوسلاویا، 1991ء میں اس کے کئی ٹکڑے ہو گئے جن میں سے ایک ملک بنا مقدونیہ۔ لیکن یونان نے ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ یہ نام نہیں رکھا جا سکتا۔ بالآخر 2018ء میں جا کر دونوں ملکوں میں معاہدہ ہوا، جس کے تحت اس ملک کو شمالی مقدونیہ کا نام دیا گیا۔