میں

لختِ جگر – افسانہ: شولم آش۔ ترجمہ: غلام عباس

بچے کے بِلکنے سے بوریاؔ کی نیند اچٹ گئی۔ آنکھیں بند کیے بیوی کو پکارا۔ گولڈاؔ کو چپ کرائیو۔ رورہا ہے۔
گولڈا کی طرف سے کوئی جواب نہ سنا تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔ اِدھر اُدھر دیکھا۔ معلوم ہوا کہ گھر میں نہیں ہے۔ پہلے تو کچھ حیرت ہوئی، پھر سوچا نہانے کو گئی ہوگی۔ پاس ہی ایک دھجی پڑی تھی۔ اُٹھاکر بچے کے منہ مین ڈھونس دی کہ روئے نہیں۔ پھر کپڑے پہننے کو اُٹھ کھڑا ہوا۔ ٓ

کپڑے پہنتے پہنتے یکایک خیال آیا کہ زوبلنز کے گھر سے جو چاندی کے شمع دان اُڑا لایا تھا، ان کے بدلے کتنی زمین ملے گی۔ یہ خیال دل پر کچھ ایسا چھاگیا کہ اسی وقت بالاخانے پر چل دیا کہ چُرائے ہوئے مال کا اندازہ لگائے، لیکن جاکر دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا۔ گھر کا کونا کونا چھان مارا۔۔۔ بے سود۔
پھرتی سے نیچے اُترآیا اور اس طرف گیا جہاں اس کی بیوی نے اپنی چیزیں لٹکارکھی تھیں۔ پردے کو نوچ ڈالا۔ دیکھا تو وہ بھی غائب۔۔۔ اب کھلا کہ بس بھاگ گئی ہے۔

ہونہہ ہونہہ۔

”بلا سے بھاگ گئی تو بھاگ جائے۔ لعنت ہو یہاں پروا ہی کسے ہے۔“ جبراً بے پروائی ظاہر کرتے اور دیواروں پر تھوکتے ہوئے اپنے آپ سے کہہ اٹھا۔
”بھئی کیا کہنا! خوب کارستانی ہے۔۔۔ ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔“

پھر بچے کی طرف دیکھا۔
”لیکن اس کم بخت کا کیا ہوگا؟“ فکرمند سا ہوگیا۔
”اگر اتنا ہی معلوم ہوجائے کہ نامراد کہاں گُم ہے تو خدا کی قسم! میں اسے ابھی لے جاکر اس کے دروازے پر رکھ دوں اور کہوں لے اسے بھی ساتھ لیتی جا۔۔۔ یہ تیرا ہی ہے۔“

یکایک ایک خیال اس کے دماغ میں آیا۔ جس سے اس کا چہرہ زرد پڑگیا اور وہ اپنا اوپر کا ہونٹ دانتوں سے کاٹنے لگا۔ ہاتھ لرزنے لگے۔ بچے کے پاس آیا، جو ننگا پڑا ہوا تھا۔ اوپر کا میلا کچیلا چیتھڑا اپنی ننھی نازک ٹانگیں چلاچلاکر پرے پھینک دیا تھا۔ ہاتھ منہ میں ٹھونسے ہوئے تھے۔ ہلکے ہلکے مسکرا رہا تھا۔ دونوں گالوں پر ننھے ننھے گڑھے پڑے ہوئے تھے۔۔۔ چہرے کے خدوخال نے اسے شبہ میں ڈال دیا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا۔
بچے کے پاس سے ہٹ گیا۔ ٹوپی پہنی اور جلدی سے دروازے میں قفل لگاکر باہر نکل آیا۔ بلامقصد چلا جارہا تھا۔ مگر دل کا سکون کھوبیٹھا تھا۔ بچے کی چیخیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ جیسے اسے بلارہی ہوں۔۔۔۔ خیال ہی خیال میں نظر آیا جیسے اس کے سامنے پڑا اپنی ننھی ننھی ٹانگیں چلارہا ہے۔ بے تحاشا دوڑرہا ہے۔۔۔ نہیں مجھے پلٹ جانا چاہیے۔ یہ ظلم ہے۔

پھر اپنے آپ سے کہنے لگا: ”خدا کی قسم! اگر وہ کمبخت ہاتھ لگ جائے تو میں گلے سے پکڑلوں اور اس زور سے گھونٹوں، اس زور سے گھونٹوں کہ زبان نکل کر باہر آپڑے۔“

نانبائی کی دُکان میں داخل ہوا۔ ایک ڈبل روٹی خریدی اور گھر واپس لوٹ آیا۔ بچہ پہلے کی طرح ننگا پڑا ہوا تھا۔ مگر مسکرارہا تھا۔

”لو مردود کیا مزے سے پڑا ہنس رہا ہے۔“
۔۔۔۔ اور پھر گھر سے نکل گیا۔ مگر ایک ایک قدم اُٹھانا دوبھر تھا۔ راستہ بھر رہ رہ کر محسوس ہوتا تھا جیسے بچے کے رونے کی آواز اس کے کانوں میں آئی ہے۔ دل میں جیسے کوئی نشتر سا اُترا جارہا تھا۔

زور سے مٹھیاں بند کیں اور پھر گھر لوٹ آیا۔ اب کے بچہ لگاتار چلائے جارہا تھا۔۔۔ ماما۔۔۔ ماما۔۔۔“

”کیوں بے ماما کے بچے۔۔۔ جاکے اپنی پیاری اماں کو ڈھونڈ کیوں نہیں لاتا؟ الٰہی! ہیضہ آجائے۔“

بچے کوگود میں اُٹھالیا۔ بچہ سینے سے لگتے ہی چمٹ گیا اور اپنے پتلے پتلے ہونٹوں سے بے تابانہ کچھ تلاش کرنے لگا۔
”الٰہی اس پر بجلی گرپڑے۔ ناگ ڈس جائے۔“ وہ کوستا جاتا اور پیار سے ننھے کے گالوں پر تھپکی دیتا جاتا تھا۔
”رو مت۔۔۔ شلوئے میل۔۔۔ بس چپ ہوجائو۔۔۔ چپ کرو۔۔۔ شاباش شاباش۔۔۔“
بچہ اپنے نازک منہ سے تلاش میں مصروف رہا۔ اِدھر اُدھر ہاتھ گھماتا۔ کبھی سر ہلاتا۔ جیسے کچھ کہنے کو ہے۔ مگر کہہ نہیں سکتا۔ اشاروں سے مطلب سمجھ کر بوریاؔ نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ چولہے پر ایک کٹورا رکھا ہوا تھا۔ جس میں تھوڑا سا دودھ تھا۔ ذرا سی ڈبل روٹی توڑکر دودھ میں بھگوئی اور چمچے کے ساتھ بچے کو کھلانے لگا۔ چمکارتا بھی جاتا تھا۔
”کھالے بیٹا کھالے۔۔۔ تیری اماں، شیطان لے جائے۔ تجھے چھوڑکر بھاگ گئی ہے۔۔۔ کتیا بھی تو اپنے بچے کو یوں نہیں چھوڑتی۔۔۔ وہ اس سے بھی بدتر ہے۔۔۔ رومت۔۔۔ نہیں میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ اپنے پاس سے کبھی الگ نہیں کروں گا۔۔۔“

جب بچہ چپکا ہوگیا تو اسے ایک کپڑے میں لپیٹ لیا اور بازار کو لے چلا۔ منڈی میں اس کے آنے سے ہلچل سی پڑگئی۔ ایں بوریا کولک اور بچہ!“

اپنی گدی پر سے کریڈنگ نے آواز دی: ”اے کولکؔ! یہ بچہ کہاں سے لیا؟“
کریڈنگ کی بیوی بے تابی سے اُٹھی اور اپنی بانہیں کھولے بچے کی طرف لپکی۔ خوشی سے باچھیں کھلی جاتی تھیں۔ کئی بار اپنے چہرے کو دامن سے پوچھا اور بچے کے پھول سے گالوں پر ہلکے ہلکے طمانچے مارے۔

”کولک یہ تیرا ہے؟۔۔۔ اس کی پیاری پیاری آنکھوں کو تو دیکھ۔ ہیں نا بالکل مرینہؔ کی سی۔۔۔ اسی کی ناک ہوبہو۔۔۔ خدا کی قسم بچہ تو لعل ہے لعل۔۔۔ لا مجھے دے دے۔“

اس نے بوریاؔ سے بچہ لے لیا اور اسے اُچھالنے لگی۔ ”ارے چل شریر۔۔۔ ہُت ترے شریر کی۔“

بوڑھا کریڈنگ چوروں کا سردار آہستہ سے اُٹھا اور بچے کے پاس آکر اسے اچھی طرح دیکھا بھالا۔ پھر کولک کی پیٹھ تھپتھپاکر کہنے لگا: ”واہ بیٹا! کولک بچہ تو خوب حسین ہے۔ لے ذرا اسے بڑا ہوجانے دے۔ پھر دیکھیو کیسی آسانی سے دیواروں کو پھاندا کرے گا۔۔۔ ہاں تو اس کی ماں کون ہے؟“

”خدا کرے آگ میں جل جائے مُردار۔۔۔ چاندی کے شمع دان لے کر چمپت ہوگئی۔“
”اور بچہ چھوڑگئی؟“
”ہاں“
”تو بُرا ہوا۔۔۔ بہت بُرا۔۔۔“

بوڑھے کریڈنگ نے اپنا سر کھجایا۔ اتنے میں اس کا بیٹا بھی آدھمکا۔ اور کولک پر آوازے کسنے لگا۔ ”بہت اچھا ہوا۔۔۔ میں جانوں اب تم اپنا پیشہ چھوڑدوگے اور دایہ گری کا کام شروع کردوگے۔۔۔ کیونکہ بے کیسا چکمہ دے گئی ہے نا؟“

کولک نے جھنجھلاکر کہا: ”جا میاں اپنی راہ الگ۔ خدا رزق رساں ہے اور کولک، کولک ہی رہے گا۔“

اس نے بچہ گود میں لے لیا اور گائوں کے بیچوں بیچ چل دیا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے لوگ اس پر انگلیاں اُٹھارہے ہیں۔ ہنس رہے ہیں۔

جب گائوں سے دور نکل کر جنگل میں پہنچ گیا تو ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ گیا۔ آس پاس کسی آدم زاد کی صورت نظر نہ آتی تھی۔ درختوں کی ٹہنیاں اپنے زرد زرد پتے بہا بہاکر آہیں بھر رہی تھیں۔ دور سے ایک ندی کی مدھم سی آواز سنائی دے رہی تھی۔ جو پتھروں سے ٹکرائی، اُچھلتی، کودتی بہی جارہی تھی۔

اس نے بچے کو پاس ہی زمین پر رکھ دیا اور اسے ترچھی نظروں سے گھورنے لگا۔ بچہ انگوٹھا چوس رہا تھا اور چپکے چپکے باپ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی سوچ میں کھویا ہوا ہے۔ بوریاؔ کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ بچے کے ساتھ کیا سلوک کرے۔ لمحہ بھر کے لیے اس کے جی میں آئی کہ اسے یہیں جنگل میں چھوڑکر چل دے۔ مگر فوراً ہی اس ننھی سی جان، اپنے ہی گوشت، اپنے ہی خون کی بے بسی پر دل بھر آیا۔ اس نے پھر گود میں اُٹھالیا اور محبت سے اس کے نازک جسم کو بھینچا۔ پھر غور سے اس کے چہرے کی طرف جو دیکھا تو اسے اپنے ہی خط وخال جھلکتے ہوئے نظر آئے اور اس کے تمام جسم میں خوشی کی گرمی دوڑگئی۔

”ننھے کولک“ محبت بھری آواز میں کہنے لگا۔ ”ہاں تو ننھا کولک ہی ہے۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ تو بڑا ہوکر نہایت عجیب وغریب نکلے گا۔ تو مکانوں میں کھڑکیوں اور ہوا دانوں اور چھجوں سے داخل ہوجایا کرے گا۔۔۔ اور قفل توڑکر بھیڑوں کی کھالیں چرا لایا کرے گا۔۔۔ پھر تیرے بچے بھی ہوں گے۔۔۔ اور ان کی ماں انہیں چھوڑکر بھاگ جائے گی۔۔۔ پھر کیا تو اپنے بچوں کو لیے دربدر بھیک مانگتا پھرے گا؟۔۔۔ تو کون ہے؟۔۔۔ کولک۔۔۔ تو بھی میری طرح۔۔۔ تو ۔۔۔۔ میں۔۔۔۔“

اس نے بچے کو ندی کے کنارے کے پاس ہی بٹھادیا اور آپ ایک درخت کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہوگیا کہ دیکھوں کیا کرتا ہے۔ بچہ اِدھر اُدھر لڑھکنے لگا۔ ہاتھوں کو چُوستا اور کہتا: ”ماما۔۔۔ ماما۔۔۔“

وہ اس درخت سے آگے بڑھ کر ایک اور درخت کے پیچھے چھپ گیا، لیکن ابھی بچے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ وہ اسی طرح اس درخت سے اُس درخت کے پیچھے چھپتا ہوا دور ہی دور ہٹنے لگا۔ یہاں تک کہ اب اسے کچھ سنائی اور دکھائی نہ دیا۔ پھر وہ سرپٹ بھاگا۔ مگر بھاگتے ہوئے بھی ننھے کی چیخیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ یکایک خیال آیا ”کہیں لڑھکتا لڑھکتا دریا میں نہ گرپڑا ہو۔۔۔ اس کا سر درد کرنے لگا۔۔۔ زور زور سے دُکھنے لگا۔ ہوش وحواس غائب ہوگئے۔۔۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا سا معلوم ہونے لگا اور دل کو جیسے کوئی چرکے لگارہا ہو۔۔۔ مگر وہ بھاگتا ہی رہا۔۔۔
یک لخت تھم گیا۔ اِدھر اُدھر دیکھا اور پوری تیزی سے اُلٹے پائوں سے لوٹا۔ بچے کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ زور زور سے رورہا ہے۔ اس نے گود میں لے لیا اور وہاں سے چلا آیا۔ جنگل کے سرے پر کچھ جھونپڑیاں سی بنی ہوئی تھیں۔۔۔ ایک ایک گھر سے گزرتا ہوا ٹوٹی ہوئی آواز میں بھیک مانگ رہا تھا: ”یتیم بچے کو تھوڑا سا دودھ دو۔ بے ماں کے بچے کو تھوڑا سا دودھ دو۔۔۔“


جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

‏[وڈیوز] اولمپک تاریخ کے سب سے بڑے تنازعات

کیا آپ کی عمر 30 سال ہو گئی ہے؟ اب یہ اصول لازماً اپنا لیں