میں

ایک قوم کے وِلن، دوسری قوم کے ہیرو

کہا جاتا ہے کہ ایک قوم کے وِلن اصل میں دوسری قوم کے ہیرو ہوتے ہیں۔ یہ بات کس حد تک ٹھیک ہے؟ اس کا اندازہ لگانے کے لیے ہم نے تاریخ سے کچھ ایسے بڑے نام نکالے ہیں جو ایک جگہ اپنے ظلم اور بربریت کی وجہ سے مشہور ہیں تو دوسری جانب ان کے آبائی ملک میں انہیں سر پر بٹھایا جاتا ہے۔ یہ تین شخصیات ہیں: چنگیز خان، تیمور لنگ اور نادر شاہ۔

چنگیز خان کو منگولیا میں، تیمور لنگ کو ازبکستان میں اور نادر شاہ ایران میں آج کیا مقام حاصل ہے؟ کیا اُن کے بھیانک مظالم کو تسلیم کیا جاتا ہے؟ نصابی کتابوں میں اُن کا ذکر کن الفاظ میں موجود ہے اور عوام ان کے بارے میں کیا تاثرات رکھتے ہیں؟ آج یہی کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو آئیے چلتے ہیں پہلی شخصیت چنگیز خان کی طرف۔

اردو میں چنگیز خان بے رحمی، سفاکیت، وحشت، بربریت، سنگ دلی اور کٹھور پن کا دوسرا نام ہے۔ اُس کے قدم خوارزم شاہی سلطنت کی طرف بڑھے اور پھر اس کی فوجوں نے پوری اسلامی دنیا ہی کو تاراج کر ڈالا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ منگول مشرقی ترکستان سے لے کر شام و فلسطین تک تقریباً پوری اسلامی دنیا پر قابض ہو چکے تھے۔ صرف چنگیز خان ہی نہیں اس کے جانشیں بھی کم نہ تھے۔ سقوطِ بغداد کے بعد ہلاکو خان نے جو کچھ کیا، وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔

صرف چنگیز خان کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد کا اندازہ لگ بھگ 4 کروڑ ہے، یعنی اُس وقت دنیا کی کُل آبادی کا 5 سے 10 فیصد حصہ چنگیز کے ہاتھوں ختم ہوا۔ یہ کروڑوں لوگ توپوں، بموں یا ایٹمی دھماکوں سے نہیں بلکہ تلواروں اور بھالوں سے کاٹ اور چیر کر ختم کیے گئے، سوچیں کتنے بڑے پیمانے پر قتلِ عام ہوا ہوگا؟

لیکن جہاں وسط ایشیا، مشرق وسطیٰ اور ہندوستان میں یہاں تک کہ مغرب میں بھی چنگیز کو دہشت کی علامت سمجھا جاتا ہے، وہیں منگول اُس کا بہت احترام کرتے ہیں اور اسے قومی ہیرو سمجھتے ہیں۔ منگولیا میں چنگیز حان کی تصویر کرنسی نوٹوں پر موجود ہے، اہم ترین ہوائی اڈہ بھی انہی کے نام پر ہے اور دارالحکومت میں پارلیمنٹ کے عین سامنے واقع چوراہا بھی چنگیز خان سے ہی موسوم ہے۔

دنیا کو برباد کرنے کے بعد جب چنگیز کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنی لاش کو خفیہ مقام پر دفنانے کی وصیت کی۔ بتایا جاتا ہے کہ اُس کی لاش کو دفنانے کے بعد ایک ہزار سپاہیوں نے اپنے گھوڑے اس کی قبر پر دوڑائے تھے تاکہ قبر کا نام و نشان تک مٹ جائے۔ یہی نہیں بلکہ اس فوجی دستے کے ہر رکن کو قتل کیا گیا اور بعد میں مارنے والوں نے بھی خود کشیاں کر لی تاکہ یہ راز ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے۔ آج آٹھ صدیاں گزر گئی ہیں، جدید دور میں بھی بہت تحقیق کی گئی لیکن چنگیز خان کی قبر کا آج تک کچھ پتہ نہیں چلا۔ مقامی لوگ سمجھتے ہیں کہ جس دن چنگیز خان کی قبر کا پتہ چلا، اس دن دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔

منگولیا کے کرنسی نوٹوں پر چنگیز خان کی تصویر

ویسے ایک عجیب و غریب داستان تیمور لنگ کی قبر کی بھی ہے، جس کا ذکر آگے آئے گا۔ تیمور بھی چنگیز خان کی طرح ایک بڑا فاتح تھا بلکہ وہ خود کو چنگیز خان کی اولاد ہی سمجھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ منگول سلطنت کے تمام علاقوں کو اپنی وراثت سمجھتا تھا۔ وہ واقعی چنگیز خان کی اولاد تھا یا نہیں؟ اس بارے میں یقین سے تو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن جو ظلم اس نے کیے، اس سے تو واقعی لگتا ہے کہ اس کے اندر بھی چنگیزی خون ہی دوڑ رہا تھا۔

تیمور لنگ کا مجسمہ

تیمور نے 1398ء میں ہندوستان پر بھی حملہ کیا تھا، جب یہاں تغلق حکمران تھے۔ ہمیشہ کی طرح دلّی کو بُری طرح لوٹا گیا، تیمور نے ایک لاکھ قیدیوں کو قتل کیا، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا اور کھوپڑیوں کے مینار تک بنائے گئے۔

صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ تیمور نے ابھرتی ہوئی سلطنتِ عثمانیہ کو بھی بہت نقصان پہنچایا۔ اس نے 1402ء میں جنگِ انقرہ میں بایزید یلدرم کو شکست دے کر سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اس سے پہلے وہ بغداد کو بھی تاراج کر چکا تھا اور وہاں 20 ہزار شہریوں کا قتل بھی کیا۔ کہتے ہیں کہ تیمور کے ہر سپاہی کو اپنے ساتھ دو انسانی سر لانے کا حکم تھا۔

بایزید یلدرم تیمور لنگ کی قید میں

لیکن ذرا ٹھیریے، یہ ساری باتیں ازبکستان کے شہروں تاشقند اور سمرقند میں مت کہیے گا، کیونکہ اس کے نتیجے کے آپ خود ذمہ دار ہوں گے۔ جہاں عرب، عراق، فارس اور ہندوستان میں تیمور کو ایک ظالم کے روپ میں دیکھا جاتا ہے، وسطِ ایشیا میں اسے ایک عظیم فاتح اور حکمران سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ان علاقوں میں خوش حالی آئی تھی۔ آج ازبکستان میں تیمور ایک قومی ہیرو ہے۔ تاشقند میں اس جگہ پر تیمور کا مجسمہ موجود ہے جہاں کبھی کارل مارکس کا مجسمہ لگا ہوتا تھا۔ کرنسی نوٹوں پر، سکّوں پر، ڈاک ٹکٹوں پر، ہر جگہ تیمور ہی تیمور ہے۔

تیمور لنگ کا مجسمہ اور مزار کی تصویر کرنسی نوٹوں پر

چنگیز خان کے مقابلے میں تیمور کی قبر ڈھکی چھپی تو نہیں ہے بلکہ سمرقند میں اُس کا ایک عالیشان مزار موجود ہے۔ لیکن اس کی قبر کی ایک مزیدار کہانی ضرور بھی ہے۔ 19 جون 1941ء کو روس کے ماہرینِ آثار قدیمہ میخائل گیراسیموف اور اُن کے ساتھیوں نے تحقیق کرنے کے لیے تیمور کی لاش نکالی تھی۔ کھوپڑی سے اس کی شکل و صورت کا اندازہ لگایا گیا اور باقی ہڈیوں سے قد کاٹھ کا۔ بہت سی باتوں کی تصدیق ہوئی، مثلاً تیمور واقعی لنگڑا تھا۔

بہرحال، کہا جاتا ہے کہ جب تیمور کی قبر کھودی گئی تو اس کے اندر سے ایک لوح بھی برآمد ہوئی تھی، جس پر لکھا تھا کہ جو میری قبر کھولے گا، اس پر مجھ سے بھی زیادہ خوفناک دشمن مسلط ہوگا۔

اب یہ لوح کی بات کوئی کہانی ہے یا واقعی ایسا ہوا تھا، اس بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن یہ ضرور حقیقت ہے کہ تیمور کی قبر کشائی کے چند دن بعد ہٹلر نے سوویت یونین پر حملہ کر دیا تھا۔ اس سے بھی مزیدار بات یہ کہ نومبر 1942ء میں جب تیمور کی باقیات واپس قبر میں دفنائی گئیں تو کچھ ہی دن بعد اسٹالن گراڈ کے اہم ترین محاذ پر نازی جرمنی کو شکست ہوئی اور سوویت یونین کی فتوحات کا آغاز ہو گیا۔ ہے نا حیرت کی بات؟

اردو میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے "نادر شاہی حکم” ، اس کا مطلب ہے خوف و دہشت پھیلا دینے والا حکم یا کوئی آمرانہ فرمان۔ اس کی نسبت ایران کے نادر شاہ سے ہے۔

نادر شاہ جنگِ کرنال کے دوران

ہندوستان اور پاکستان کے لوگ نادر شاہ کو جنگِ کرنال کی وجہ سے جانتے ہیں۔ یہ جنگ فروری 1739ء میں نادر شاہ اور مغل بادشاہ محمد شاہ کے درمیان لڑی گئی تھی، بلکہ لڑی کیا گئی تھی، بس تین گھنٹے میں ایرانی فوج نے خود سے کئی گُنا بڑی مغل فوج کو بُری طرح ہرا دیا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ دلّی کے رہنے والوں کا مال، جانیں اور عزت نادر شاہی فوج کے رحم و کرم پر تھیں۔ اصل میں کسی نے نادر شاہ کی فوج کے چند سپاہیوں کے خلاف مزاحمت کی اور انہیں مار ڈالا، اس پر نادر شاہ نے غصے میں آ کر قتلِ عام کا حکم دیا۔ پھر نادر شاہی حکم کے مطابق چاندنی چوک سے لے کر فتح پوری اور کشمیری دروازے سے دلّی دروازے تک، کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں لاشیں نہ پڑی ہوں۔ بہت سے لوگوں نے محض اس خوف سے اپنے بیوی بچے قتل کر دیے کہ کہیں وہ قابض فوج کے ہتھے نہ چڑھ جائیں کیونکہ بلا امتیاز قتلِ عام کا حکم تھا۔ لاکھوں لوگ مارے گئے، نادر شاہ دلّی میں 57 دن رہا اور ہر دن روزِ قیامت تھا۔

تاجِ برطانیہ میں جڑا مشہور زمانہ ہیرا کوہِ نور جو نادر شاہ ہی لوٹ کر ہندوستان سے لے گیا تھا

یہ تو عام شہر کا حال تھا، قلعے کے اندر بھی حالات کچھ اچھے نہیں تھے۔ نادر شاہ جو کچھ لوٹ سکا، اس نے لوٹا، تختِ طاؤس سے لے کر کوہِ نور تک، اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ۔ مؤرخین کے مطابق کُل 70 کروڑ روپے مالیت کا سامان لوٹا گیا۔ ساتھ ہی وہ ہزاروں کاریگر، ماہر سنگ تراش اور ہزاروں ہاتھی، گھوڑے اور اونٹ بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ یہ اتنا مال تھا کہ نادر شاہ نے تین سال کے لیے اپنے ملک میں ٹیکس ہی ختم کر دیا تھا۔

نادر شاہ کے حملے سے مغلیہ سلطنت ایسی کمزور پڑی کہ پھر دوبارہ کبھی سر نہ اٹھا سکی۔ اس کے کئی صوبے ایران کے پاس چلے گئے کیونکہ معاہدے کے تحت دریائے سندھ کے پار کا علاقہ ایران کو دے دیا تھا۔

ویسے عزت تو محمد شاہ نے بھی حاصل نہیں کی، آج بھی دنیا اسے محمد شاہ رنگیلے کے نام سے جانتی ہے۔ لیکن اس ظالم نادر شاہ کو ایران میں آج بھی ایک ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ اس کا ہیرو تیمور تھا، اس لیے اس نے بھی کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کیے۔ یہاں تک کہ آخر میں خود اس کے ساتھی مظالم کا نشانہ بننے لگے، نتیجہ یہ نکلا کہ انتہائی قریبی ساتھیوں نے اسے قتل کر دیا۔

لیکن ایرانی اسے وہ حاکم سمجھتے ہیں جس نے دلّی سے لے کر بحرین اور قندھار سے بخارا تک وہ تمام علاقے فتح کیے جو عظیم تر ایران کا حصہ تھے۔ نصابی کتابوں میں اب تو نادر شاہ کا ذکر ذرا کم رہ گیا ہے لیکن 1979ء کے انقلاب سے پہلے تو اسکول کی کتابوں میں نادر شاہ کا کافی ذکر ہوتا تھا۔ پھر بھی آج مشہد میں نادر شاہ کا بڑا مجسمہ موجود ہے، جو ظاہر کرتا ہے ایرانی اسے ایک عظیم بادشاہ سمجھتے ہیں۔ پھر اسے مشرق کا نپولین اور فارس کی تلوار بھی کہا جاتا ہے۔

مشہد میں نادر شاہ کے مزار کے باہر نصب مجسمہ

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ چنگیز خان، امیر تیمور اور نادر شاہ عسکری لحاظ سے انتہائی ذہین لوگ تھے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے اسلامی دنیا کے چہرے پر جو زخم لگائے، اس کے داغ آج بھی محسوس ہوتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

[وڈیوز] نواز شریف کا دِل ٹوٹ گیا؟

علامہ اقبال کی دو قبریں، ایک پاکستان، دوسری کہاں؟