میں

گنڈاسا – احمد ندیم قاسمی

اکھاڑہ جم چکا تھا۔ طرفین نے اپنی اپنی ”چوکیاں“ چن لی تھیں۔ ”پڑکوڈی“ کے کھلاڑی جسموں پر تیل مل کر بجتے ہوئے ڈھول کے گرد گھوم رہے تھے۔ انہو ں نے رنگین لنگوٹیں کس کر باندھ رکھی تھیں۔ ذرا ذرا سے سفید پھینٹھیے ان کے چپڑے ہوئے لانبے لابنے پٹوں کے نیچے سے گزر کر سر کے دونوں طرف کنول کے پھولوں کے سے طرے بنارہے تھے۔ وسیع میدان کے چاروں طرف گپوں اور حقوں کے دور چل رہے تھے اور کھلاڑیوں کے ماضی اور مستقبل کو جانچا پرکھا جارہا تھا۔ مشہور جوڑیاں ابھی میدان میں نہیں اتری تھیں۔ یہ نامور کھلاڑی اپنے دوستوں اور عقیدت مندوں کے گھیرے میں کھڑے اس شدت سے تیل چپڑوارہے تھے کہ ان کے جسموں کو ڈھلتی دھوپ کی چمک نے بالکل تانبے کا سا رنگ دے دیا تھا۔ پھر یہ کھلاڑی بھی میدان میں آئے، انہوں نے بجتے ہوئے ڈھولوں کے گرد چکر کاٹے اور اپنی اپنی چوکیوں کے سامنے ناچتے کودتے ہوئے بھاگنے لگے اور پھر آناً فاناً سارے میدان میں ایک سرگوشی بھنور کی طرح گھوم گئی۔
”مولا کہاں ہے؟“

مولا ہی کا کھیل دیکھنے کو تو یہ لوگ دور دراز کے دیہات سے کھنچے چلے آئے تھے۔ ”مولا کا جوڑی وال تاجا بھی تو نہیں!“

دوسرا بھنور پیدا ہوا اور لوگ پوربی چوکی کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتے بڑھنے لگے۔ جما ہوا پڑ ٹوٹ گیا۔ منتظمین نے لمبے لمبے بیدوں اور لاٹھیوں کو زمین پر مار مار کر بڑھتے ہوئے ہجوم کے سامنے گرد کا طوفان اڑانے کی کوشش کی کہ پڑ کا ٹوٹنا اچھا شگون نہ تھا، مگر جب یہ سرگوشی ان کے کانوں میں سیروں بارود بھرا ہوا ایک گولا ایک چکرا دینے والے دھماکے سے پھٹ پڑا۔ ہر طرف سناٹا چھاگیا۔ لوگ پڑ کی چوکور حدوں کی طرف واپس جانے لگے۔ مولا اپنے جوڑی وال تاجے کے ساتھ میدان میں آگیا۔ اس نے پھندنوں اور ڈوریوں سے سجے اور لدے ڈھول کے گرد بڑے وقار سے تین چکر کاٹے اور پھر ڈھول کو پوروں سے چھوکر یا علیؓ کا نعرہ لگانے کے لیے ہاتھ ہوا میں بلند کیا ہی تھا کہ ایک آواز ڈھولوں کی دھما دھم کو چیرتی پھاڑتی اس کے سینے پر گنڈاسا بن کر پڑی۔ ”مولے“۔ ”اے مولے بیٹے۔ تیرا باپ قتل ہوگیا!“

مولا کا اٹھا ہوا ہاتھ سانپ کے پھن کی طرح لہرا گیا اور پھر ایک دم جیسے اس کے قدموں میں نہتے نکل آئے۔ ”رنگے نے تیرے باپ کو ادھیڑ ڈالا ہے گنڈاسے سے!“ ان کی ماں کی آواز نے اس کا تعاقب کیا!

پڑ ٹو ٹ گیا۔ ڈھول رک گئے۔ کھلاڑی جلدی جلدی کپڑے پہننے لگے۔ ہجوم میں افراتفری پیدا ہوئی اور پھر بھگدڑ مچ گئی۔ مولے کے جسم کا تانبا گاؤں کی گلیوں میں کونڈتے بکھیرتا اڑا جا رہا تھا۔ بہت پیچھے اس کا جوڑی وال تاجا اپنے اور مولا کے کپڑوں کی گھٹڑی سینے سے لگائے آرہا تھا اور پھر اس کے پیچھے ایک خوف زدہ ہجوم تھا۔ جس گاؤں میں کسی شخص کو ننگے سر پھرنے کا حوصلہ نہ ہوسکتا تھا وہاں مولا صرف ایک گلابی لنگوٹ باندھے پنہاریوں کی قطاروں، بھیڑوں، بکریوں کے ریوڑوں کو چیرتا ہوا لپکا جارہا تھا اور جب وہ رنگے کی چوپال کے بالکل سامنے پہنچا تو سامنے کے ایک اور ہجوم میں سے پیر نورشاہ نکلے اور مولا کو للکار کر بولے: ”رک جا مولے!“

مولا لپکا چلا گیا، مگر پھر ایک دم جیسے اس کے قدم جکڑلیے گئے اور وہ بت کی طرح جم کر رہ گیا۔ پیر نور شاہ اس کے قریب آئے اور اپنی پاٹ دار آواز میں بولے: ”تو آگے نہیں جائے گا مولے!“

ہانپتا ہوا مولا کچھ دیر پیر نور شاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا رہا۔ پھر بولا ”آگے نہیں جاؤں گا پیر جی تو زندہ کیوں رہوں گا؟“

”میں کہہ رہا ہوں۔“ پیر جی… ”میں“ پر زور دیتے ہوئے دبدبے سے بولے۔

مولا ہانپنے کے باوجود ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا: ”تو پھر میرے منہ پر کالک بھی مل ڈالیے اور ناک بھی کاٹ ڈالیے میری، مجھے تو اپنے باپ کے خون کا بدلہ چکانا ہے پیر جی۔ بھیڑ بکری کی بات ہوتی تو میں آپ کے کہنے پر یہیں سے پلٹ جاتا۔“

مولا نے گردن کو بڑے زور سے جھٹکا دے کر رنگے کے چوپال کی طرف دیکھا۔ رنگا اور اس کے بیٹے بٹھوں پر گنڈاسے چڑھائے چوپائے پر تنے کھڑے تھے۔ رنگے کا بڑا لڑکا بولا:
”آؤ بیٹے آؤ۔ گنڈاسے کے ایک ہی وار سے پھٹے ہوئے پیٹ میں سے انتڑیوں کا ڈھیر نہ اگل ڈالوں تو قادا نام نہیں۔ میرا گنڈاسا جلد باز ہے اور کبڈی کھیلنے والے لاڈلے بیٹے باپ کے قتل کا بدلا نہیں لیتے، روتے ہیں اور کفن کا لٹھا ڈھونڈنے چلے جاتے ہیں۔“

مولا جیسے بات ختم ہونے کے انتظار میں تھا۔ ایک ہی رفتار میں چوپال کی سیڑھیوں پر پہنچ گیا۔ مگر اب کبڈی کے میدان کا ہجوم بھی پہنچ گیا تھا اور گاؤں کا گاؤں اس کے راستے میں حائل ہوگیا تھا۔ جسم پر تیل چپڑ رکھا تھا اس لیے وہ روکنے والوں کے ہاتھوں سے نکل نکل جاتا، مگر پھر جکڑ لیا جاتا۔ ہجوم کا ایک حصہ رنگے اور اس کے تینوں بیٹوں کو بھی روک رہا تھا۔ چار گنڈاسے ڈوبتے ہوئے سورج کی روشنی میں جنوں کی طرح بار بار دانت چمکارہے تھے کہ اچانک جیسے سارے ہجوم کو سانپ سونگھ گیا۔ پیر نور شاہ قرآن مجید کو دونوں ہاتھوں میں بلند کیے چوپال کی سیٹرھیوں پر آئے اور چلائے: ”اس کلام اللہ کا واسطہ! اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ ورنہ بدبختو گاؤں کا گاؤں کٹ مرے گا۔ جاؤ تمہیں خدا اور رسولؑ کا واسطہ، قرآن پاک کا واسطہ، جاؤ، چلے جاؤ۔“

لوگ سرجھکاکر ادھر ادھر بکھرنے لگے۔ مولا نے جلدی سے تائے سے پٹکا لے کر ادب سے اپنے گھٹنوں کو چھپالیا اور سیٹرھیوں پر سے اترگیا۔ پیر صاحب قرآن مجید کو بغل میں لیے اس کے پاس آئے اور بولے: ”اللہ تعالیٰ تمہیں صبر دے اور آج کے اس نیک کام کا اجر دے۔“

مولا آگے بڑھ گیا۔ تاجا اس کے ساتھ تھا اور جب وہ گلی کے موڑ پر پہنچے تو مولا نے پلٹ کر رنگے کی چوپال پر ایک نظر ڈالی۔

”تم تو رو رہے ہو مولے؟“ تاجے نے بڑے دکھ سے کہا۔

اور مولا نے اپنے ننگے بازو کو آنکھوں پر رگڑ کر کہا۔ ” تو کیا اب روؤں بھی نہیں؟“

”لوگ کیا کہیں گے؟“ تاجے نے مشورہ دیا۔

”ہاں تاجے!“ مولے نے دوسری بار بازو آنکھوں پر رگڑا۔ ”میں بھی تو یہی سوچ رہا ہوں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ میرے باپ کے خون پر مکھیاں اڑ رہی ہیں اور میں یہاں گلی میں ڈرے ہوئے کتے کی طرح دم دُبائے بھاگا جارہاہوں، ماں کے گھٹنے سے لگ کر رونے کے لیے!“

لیکن مولا ماں کے گھٹنے سے لگ کر رویا نہیں۔ وہ گھر کے دالان میں داخل ہوا تو رشتہ دار اس کے باپ کی لاش تھانے اٹھا لے جانے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ منہ پیٹتی اور بال نوچتی ماں اس کے پاس آئی اور ”شرم تو نہیں آتی“ کہہ کر منہ پھیر کر لاش کے پاس چلی گئی۔ مولا کے تیور اسی طرح تنے رہے۔ اس نے بڑھ کر باپ کی لاش کو کندھا دیا اور برادری کے ساتھ روانہ ہوگیا۔

اور ابھی لاش تھانے نہیں پہنچی ہوگی کہ رنگے کی چوپال پر قیامت مچ گئی۔ رنگا چوپال کی سیڑھیوں پر سے اترکر سامنے اپنے گھر میں داخل ہونے ہی لگا تھا کہ کہیں سے ایک گنڈاسا لپکا اور انتڑیوں کا ایک ڈھیر اس کے پھٹے ہوئے پیٹ سے باہر ابل کر اس کے گھر کی دہلیز پر بھاپ چھوڑنے لگا۔ کافی دیر کو افرا تفری کے بعد رنگے کے بیٹے گھوڑوں پر سوار ہو کر رپٹ کے لیے گاؤں سے نکلے، مگر جب وہ تھانے پہنچے تو یہ دیکھ کر دم بخود رہ گئے کہ جس شخص کے خلاف وہ رپٹ لکھوانے آئے ہیں وہ اپنے باپ کی لاش کے پاس بیٹھا تسبیح پر ”قل ھو اللہ“ کا ورد کررہا تھا۔ تھانے دار سے انہوں نے بہت ہیر پھیر کی کوشش کی اور اپنے باپ کا قاتل مولا ہی کو ٹھہرایا، مگر تھانیدار نے انہیں سمجھایا کہ ”خواہ مخواہ اپنے باپ کے قاتل کو ضائع کربیٹھو گے، کوئی عقل کی بات کرو۔ ادھر یہ میرے پاس اپنے باپ کے قتل کی رپٹ لکھوارہا ہے، ادھر تمہارے باپ کے پیٹ میں گنڈاسا بھی بھونک آیا ہے۔“

آخر دونوں طرف سے چالان ہوئے، لیکن دونوں قتلوں کا کوئی چشم دید ثبوت نہ ملنے کی بنا پر طرفین بری ہوگئے اور جس روز مولا رہا ہوکر گاؤں میں آیا تو اپنی ماں سے ماتھے پر ایک طویل بوسہ ثبت کرانے کے بعد سب سے پہلے تاجے کے ہاں گیا۔ اسے بھینچ کر گلے لگایا اور کہا: ”اس روز تم اور تمہارا گھوڑا میرے کام نہ آتے تو آج میں پھانسی کی رسی میں توری کی طرح لٹک رہا ہوتا۔ تمہاری جان کی قسم! جب میں نے رنگے کے پیٹ کو کھول کر رکاب میں پاؤں رکھا، آندھی بن گیا خدا کی قسم…. اسی لیے تو لاش ابھی تھانے بھی نہیں پہنچی تھی کہ میں ہاتھ جھاڑ کر واپس بھی آگیا۔“

سارے گاؤں کو معلوم تھا کہ رنگے کا قاتل مولا ہی ہے، مگر مولے کے چند عزیزوں اور تاجے کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ سب کچھ ہوا کیسے؟ پھر ایک دن گاؤں میں یہ خبر گشت کرنے لگی کہ مولا کا باپ تو رنگے کے بڑے بیٹے قادر کے گنڈاسے سے مرا تھا، رنگا تو صرف ہشکار رہا تھا بیٹوں کو۔ رات کو چوپالوں اور گھروں میں یہ موضوع چلتا رہا اور صبح کو پتا چلا کہ قادر اپنے کوٹھے کی چھت پر مردہ پایا گیا اور وہ بھی یوں کہ جب اس کے بھائیوں پھلے اور گلے نے اسے اٹھانے کی کوشش کی تو اس کا سر لڑھک کر نیچے گرا اور پرنالے تک لڑھکتا چلا گیا۔ رپٹ لکھوائی اور مولا پھر گرفتار ہو گیا۔ مرچوں کا دھواں پیا، تپتی دوپہر میں لوہے کی چادر پر کھڑا رہا۔ کتنی راتیں اسے اونگھنے تک نہ دیا گیا، مگر وہ اقبالی نہ ہوا اور آخر مہینوں کے بعد رہا ہوکر گاؤں میں آنکلا اور جب اس نے آنگن میں قدم رکھا تو ماں بھاگی ہوئی آئی۔ اس کے ماتھے پر طویل بوسہ دیا اور بولی: ”ابھی دو اور باقی ہیں میرے لال۔ رنگے کا کوئی نام لیوا نہ رہے، تو جبھی بتیس دھاریں بخشوں گی۔ میرے دودھ میں تیرے باپ کا خون تھا مولے، اور تیرے خون میں میرا دودھ ہے اور تیرے گنڈاسے پر میں نے زنگ نہیں چڑھنے دیا۔“

مولا اب علاقے بھر کی ہیبت بن گیا تھا۔ اس کی مونچھوں میں دو دو بل آگئے تھے۔ کانوں میں سونے کی بڑی بڑی بالیاں، خوشبودار تیل اس کے لہرئیے بالوں میں آگ کی قلمیں سی جائے رکھتا۔ ہاتھی دانت کا ہلالی کنگھا اتر کر اس کی کنپٹی پر چمکنے لگا تھا۔ وہ گلیوں میں چلتا تو پٹھے کے تہبند کا کم سے کم آدھا گز تو اس کے عقب میں لوٹتا ہوا جاتا۔

باریک ململ کا پٹکا اس کے کندھے پر پڑا رہتا اور اکثر اس کا سرا گر کر زمین پر گھسٹتے چلا جاتا۔ مولاکے ہاتھ میں ہمیشہ اس کے قد سے بھی لمبی تلی پلی لٹھ ہوتی اور جب وہ گلی کے کسی موڑ یا کسی چوراہے پر بیٹھتا تو یہ لٹھ جس انداز سے اس کے گھٹنے سے آلگتی اسی انداز سے لگی رہتی اور گلی میں سے گزرنے والوں کو اتنی جرأت نہ ہوتی کہ وہ مولا کو لٹھ ایک طرف سرکانے کے لیے کہہ سکیں۔ اگر کبھی لٹھ ایک دیوار سے دوسری دیوار تک تن گئی تو لو گ آتے، مولا کی طرف دیکھتے اور پلٹ کر کسی دوسری گلی میں چلے جاتے۔ عورتوں اور بچوں نے تو وہ گلیاں ہی چھوڑ دی تھیں جہاں مولا بیٹھنے کا عادی تھا۔ مشکل یہ تھی کہ مولا کی لٹھ پر سے الانگنے کا بھی کسی میں حوصلہ نہ تھا۔ ایک بار کسی اجنبی نوجوان کا اس گلی میں سے گزر ہوا، مولا اس وقت ایک دیوار سے لگا لٹھ سے دوسرے دیوار کریدے جارہا تھا۔ اجنبی آیا اور لٹھ پر سے الانگ گیا۔ ایکا ایکی مولا نے بپھر کر ٹینک میں سے گنڈاسا نکالا اور لٹھ پر چڑھا کر بولا: ”ٹھہر جاؤ چھوکرے، جانتے ہو تم نے کس کی لٹھ الانگی ہے، یہ مولا کی لٹھ ہے۔ مولے گنڈاسے والے کی۔“

نوجوان مولا کا نام سنتے ہی یک لخت زرد پڑ گیا اور ہولے سے بولا: ”مجھے پتا نہیں تھا، مولے۔“

مولا نے گنڈاسا اتار کر ٹینک میں اڑس لیا اور لٹھ کے ایک سرے کو نوجوان کے پیٹ پر ہلکے سے دبا کر بولا: ”تو پھر جا اپنا کام کر۔“ اور پھروہ لٹھ کو یہاں سے وہاں تک پھیلاکر بیٹھ گیا۔

مولا کا لباس، اس کی چال، اس کی مونچھیں اور سب سے زیادہ اس کا لا ابالیانہ انداز، یہ سب پہلے گاؤں کے فیشن میں داخل ہوئے اور پھر علاقے بھر کے فیشن پر اثر انداز ہوئے، لیکن مولا کی جو چیز فیشن میں داخل نہ ہوسکی وہ اس کی لانبی لٹھ تھی۔ تیل پلی، پیتل کے کوکوں سے اٹی ہوئی، لوہے کی شاموں میں لپٹی ہوئی، گلیوں کے کنکروں پر بجتی اور یہاں سے وہاں تک پھیل کر آنے والوں کو پلٹا دینے والی لٹھ اور پھر وہ گنڈاسا جس کی میان مولا کی ٹینک تھی اور جس پر اس کی ماں زنگ کا ایک نقطہ تک نہیں دیکھ سکتی تھی۔

لوگ کہتے تھے کہ مولا گلیوں کے نکڑوں پر لٹھ پھیلائے اور گنڈاسا چھپائے گلے اور پھلے کی راہ تکتا ہے۔ قادرے کے قتل اور مولے کی رہائی کے بعد پھلا فوج میں بھرتی ہوکر چلا گیا تھا اور گلے نے علاقہ کے مشہور رسہ گیر چوھدری مظفر الٰہی کے ہاں پناہ لی تھی، جہاں وہ چوہدری کے دوسرے ملازموں کے ساتھ چناب اور راوی پر سے بیل اور گائیں بھینسیں چوری کرکے لاتا۔ چوہدری مظفر اس مال کو منڈیوں میں بیچ کر امیروں، وزیروں اور لیڈروں کی بڑی بڑی دعوتیں کرتا اور اخباروں میں نام چھپواتا اور جب چناب اور راوی کے کھوجی مویشیوں کے کھروں کے سراغ کے ساتھ ساتھ چلتے چوہدری مظفر کے قصبے کے قریب پہنچتے تو جی میں کہتے: ”ہمارا ماتھا پہلے ہی ٹھنکا تھا!“

انہیں معلوم تھا کہ اگر وہ کھروں کے سراغ کے ساتھ ساتھ چلتے چوہدری کے گھر تک جاپہنچے تو پھر کچھ دیر بعد لوگ مویشیوں کی بجائے خود کھوجیوں کا سراغ لگاتے پھریں گے اور لگا نہ پائیں گے۔ وہ چوہدری کے خوف کے مارے قصبے کے ایک طرف سے نکل کر تھلوں کے ریتے میں پہنچ کر یہ کہتے ہوئے واپس آجاتے: ”کھروں کے نشان یہاں سے غائب ہورہے ہیں۔“

مولا نے چوہدری مظفر اور اس کے پھیلے ہوئے بازؤں کے بارے میں سن رکھا تھا۔ اسے کچھ ایسا لگتا تھا کہ جیسے علاقہ بھر میں صرف یہ چوہدری ہی ہے جو اس کی لٹھ الانگ سکتا ہے، لیکن فی الحال اسے رنگے کے دونوں بیٹوں کا انتظار تھا۔

تاجے نے بڑے بھائیوں کی طرح مولے کوڈانٹا ”اور کچھ نہیں تو اپنی زمینوں کی نگرانی کرلیا کر، یہ کیا بات ہوئی کہ صبح سے شام تک گلیوں میں لٹھ پھیلائے بیٹھے ہیں اور میراثیوں، نائیوں سے خدمتیں لی جارہی ہیں۔ تو شاید نہیں جانتا پر جان لے تو اس میں تیرا ہی بھلا ہے کہ مائیں بچوں کو تیرا نام لے کر ڈرانے لگی ہیں۔ لڑکیاں تو تیرا نام سنتے ہی تھوک دیتی ہیں۔ کسی کو بد دعا دینی ہو تو کہتی ہیں اللہ کرے تجھے مولا بیاہ کر لے جائے۔ سنتے ہو مولے!“

لیکن مولا تو جس بھٹی میں کودا تھا اس میں پک کر پختہ ہوچکا تھا۔ بولا: ”ابے جا تاجے اپنا کام کر، گاؤں بھر کی گالیاں سمیٹ کر میرے سامنے ان کا ڈھیر لگانے آیا ہے؟ دوستی رکھنا بڑی جی داری کی بات ہے پٹھے، تیرا جی چھوٹ گیا ہے تو میری آنکھوں میں دھول کیوں جھونکتا ہے۔ جا اپنا کام کر، گنڈاسے کی پیاس ابھی تک نہیں بجھی…. جا….“

اس نے لاٹھی کو کنکروں پر بجایا اور گلی کے سامنے والے مکان میں میراثی کو بانگ لگائی: ”ابے اب تک چلم تازہ نہیں کرچکا الو کے پٹھے، جاکر گھر والوں کی گود میں سوگیا، چلم لا۔“

تاجا پلٹ گیا، مگر گلی کے موڑ پر رُک گیا اور مڑ کر مولے کو کچھ یوں دیکھا جیسے اس کی جواں مرگی پر پھوٹ پھوٹ کر رو دے گا۔

مولا کنکھیوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اُٹھا اور لٹھ کو اپنے پیچھے گھسیٹتا تاجے کے پاس آکر بولا: دیکھ تاجے مجھے ایسا لگتا ہے تو مجھ پر ترس کھارہا ہے اس لیے کہ کسی زمانے میں تیری یاری تھی پر اب یہ یاری ٹوٹ گئی ہے۔ تاجے تو میرا ساتھ نہیں دے سکتا تو پھر ایسی یاری کو لے کر چاٹنا ہے۔ میرے باپ کا خون اتنا سستا نہیں تھا کہ رنگے اور اس کے ایک ہی بیٹے کے خون سے حساب چک جائے۔ میرا گنڈاسا تو ابھی اس کے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں تک پہنچے گا، اس لیے جا اپنا کام کر۔ تیری میری یار ختم۔ اس لیے مجھ پر ترس نہ کھایا کر، کوئی مجھ پر ترس کھائے تو آنچ میرے گنڈاسے پر جا پہنچتی ہے، جا۔“

واپس آکر مولا نے میراثی سے چلم لے کر کش لگایا تو سلفہ ابھر کر بکھر گیا۔ ایک چنگاری مولا کے ہاتھ پر گری اور ایک لمحہ تک وہیں چمکتی رہی۔ میراثی نے چنگاری کو جھاڑنا چاہا تو مولا نے اس کے ہاتھ پر اس زور سے ہاتھ مارا کہ میراثی بل کھاکر رہ گیا اور ہاتھ کو ران اور پنڈلی میں دباکر ایک طرف ہٹ گیااور مولا گرجا: ”ترس کھاتا ہے حرامزادہ۔“

اس نے چلم اُٹھاکر سامنے دیوار پر پٹخ دی اور لٹھ اٹھاکر ایک طرف چل دیا۔

لوگوں نے مولا کو ایک نئی گلی کے چوراہے پر بیٹھے دیکھا تو چونکے اور سرگوشیاں کرتے ہوئے ادھر اُدھر بکھرگئے۔ عورتیں سر پر گھڑے رکھے آئیں اور ”ہائیں“ کرتی واپس چلی گئیں۔

مولا اس وقت دور مسجد کے مینار پر بیٹھی ہوئی چیل کو تکے جارہا تھا۔ اچانک اسے کنکروں پر لٹھ کے بجنے کی آواز آئی۔ چونک کراس نے دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکی نے اس کی لٹھ اُٹھاکر دیوار کے ساتھ رکھ دی ہے اور ان لانبی سرخ مرچوں کو چن رہی ہے جو جھکتے ہوئے اس کے سر پر رکھی ہوئی گھٹڑی میں سے گر گئی تھیں۔ مولا سناٹے میں آگیا، لٹھ کو الانگنا تو ایک طرف رہا، اس نے یعنی ایک عورت ذات نے لٹھ کو گندے چیتھڑے کی طرح اٹھاکر پرے ڈال دیا ہے اور اب بڑے اطمینان سے مولا کے سامنے بیٹھی مرچیں چن رہی ہے اور جب مولا نے کڑک کر کہا: ”جانتی ہو تم نے کس کی لاٹھی پر ہاتھ رکھا ہے؟ جانتی ہو میں کون ہوں؟ تو اس نے ہاتھ بلند کرکے چنی ہوئی مرچیں گٹھڑی میں ٹھونستے ہوئے کہا کوئی سڑی لگتے ہو۔“

مولا مارے غصے کے اٹھ کھڑا ہوا۔ لڑکی بھی اٹھی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نرمی سے بولی اسی لیے تو میں نے تمہاری لٹھ تمہارے سر پر نہیں دے ماری۔ ایسے لٹے لٹے سے لگتے تھے مجھے تو تم پر ترس آگیا تھا۔“

”تر س آگیا تھا؟ مجھ پر؟ مولا پر؟“ مولا دھاڑا۔

”مولا!“ لڑکی نے گٹھڑی کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا اور ذرا سی چونک گئی۔
”ہاں مولا، گنڈاسے والا“ مولا نے بڑے ٹھسے سے کہا۔

اور وہ ذرا سی مسکراکر گلی میں جانے لگی۔

مولا کچھ دیر وہاں چپ چاپ کھڑا رہا، پھر لمبی سانس لے کر دیوار سے لگ کر بیٹھ گیا۔ لٹھ کو سامنے کی دیوار پر پھیلایا تو پرلی طرف سے ادھیڑ عمر کی ایک عورت آتی دکھائی دی۔ وہ مولا کو دیکھ کر ٹھٹکی۔ مولا نے لٹھ اٹھا کر ایک طرف رکھ دی اور بولا: ”آجاؤ ماسی، آجاؤ میں تمہیں کھا تھوڑی جاؤں گا۔“

حواس باختہ عورت آئی اور مولا کے پاس سے گزرتے ہوئے بولی۔ ”کیسا جھوٹ بکتے ہیں لوگ۔ کہتے ہیں جہاں مولا بخش بیٹھا ہو وہاں سے باؤ کتا بھی دبک کر گزرتا ہے، پر تُو نے میرے لیے اپنی لٹھ…“

”کون کہتا ہے؟“ مولا اٹھ کھڑا ہوا۔

”سب کہتے ہیں، سارا گاؤں کہتا ہے۔ ابھی ابھی کنویں پر یہی باتیں ہو رہی تھیں، پر میں نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ مولا…“

لیکن مولا اب تک اس گلی میں لپک گیا تھا جس میں ابھی ابھی نوجوان لڑکی گئی تھی۔ وہ تیز تیز چلتا گیا اور آخر دور لمبی گلی کے سرے پر وہی لڑکی جاتی نظر آئی۔ وہ بھاگنے لگا۔ آنگنوں میں بیٹھی ہوئی عورتیں دروازوں تک آگئیں اور بچے چھتوں پر چڑھ گئے۔ مولا کا گلی میں سے بھاگ کر نکلنا کسی حادثے کا ہی پیش خیمہ سمجھا گیا۔ لڑکی نے بھی مولا کے قدموں کی چاپ سن لی تھی۔ وہ پلٹی اور پھر وہیں جمی کھڑ ی رہ گئی۔ اس نے بس اتنا ہی کیا کہ گٹھڑی کودونوں ہاتھوں سے تھا م لیا، چند مرچیں دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح اس کے پاؤں میں بکھر گئیں۔

”میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔“ مولا پکارا۔ ”کچھ نہیں کہوں گا میں تمہیں۔“

لڑکی بولی: ”میں ڈر کے نہیں رکی۔ ڈریں میرے دشمن۔“

مولا رک گیا۔ پھر ہولے ہولے چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور بولا: ”بس اتنا بتا دو تم ہو کون؟“

لڑکی ذرا سا مسکرادی۔

عقب سے بڑھیا کی آواز آئی۔ ”یہ رنگے کے چھوٹے بیٹے کی منگیتر راجو ہے، مولا بخش!“

مولا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر راجو کو دیکھنے لگا۔ اسے راجو کے پاس رنگا اور رنگے کا سارا خاندان کھڑا نظر آیا۔ اس کا ہاتھ ٹینک تک گیا اور پھر رسے کی طرح لٹک گیا۔ راجو پلٹ کر بڑی متوازن رفتار سے چلنے لگی۔

مولا نے لاٹھی ایک طرف پھینک دی اور بولا: ”ٹھہرو راجو! یہ اپنی مرچیں لیتی جاؤ۔“

راجو رک گئی۔ مولا نے جھک کر ایک ایک مرچ چن لی اور پھر اپنے ہاتھ سے انہیں راجو کی گٹھڑی میں ٹھونستے ہوئے بولا: ”تمہیں مجھ پر ترس آیا تھا نا راجو؟“

لیکن راجو ایک دم سنجیدہ ہوگئی اور اپنے راستے پر ہولی۔ مولا بھی واپس جانے لگا۔ کچھ دور ہی گیا تھا کہ بڑھیا نے اسے پکارا: ”یہ تمہاری لٹھ تو یہیں رکھی رہ گئی مولا بخش!“

مولا پلٹا اور لٹھ لیتے ہوئے بڑھیا سے پوچھا: ”ماسی! یہ لڑکی راجو کیا یہیں کی رہنے والی ہے؟ میں نے تو اسے کبھی نہیں دیکھا۔“

”یہیں کی ہے بھی بیٹا اور نہیں بھی۔“ بڑھیا بولی۔ ”اس کے باپ نے لام میں دونوں بیٹوں کے مرنے کے بعد جب دیکھا کہ وہ روز ہل اٹھاکر اتنی دور کھیتوں میں نہیں جاسکتا تو گائوں والے گھر کی چھت اکھیڑی اور یہاں سے یوں سمجھو کہ کوئی دو ڈھائی کوس دور ایک ڈھوک بنالی۔ وہیں راجو اپنے باپ کے ساتھ رہتی ہے۔ تیسرے چوتھے روز گاؤں میں سودا سلف خریدنے آجاتی ہے اور بس۔“

مولا جواب میں صرف ”ہوں“ کہہ کر واپس چلا گیا، لیکن گاؤں بھر میں یہ خبر آندھی کی طرح پھیل گئی کہ آج مولا اپنی لٹھ ایک جگہ رکھ کر بھول گیا۔ باتوں باتوں میں راجو کا ایک دو بار نام آیا، مگر دب گیا۔ رنگے کے گھرانے اور مولا کے درمیان صرف گنڈاسے کا رشتہ تھا نا، اور راجو رنگے ہی کے بیٹے کی منگیتر تھی… اور اپنی جان کسے پیاری نہیں ہوتی۔“

اس واقعے کے بعد مولا گلیوں سے غائب ہوگیا۔ سارا دن گھر بیٹھا لاٹھی سے دالان کی مٹی کریدتا رہتا اور اگر کبھی باہر جاتا بھی تو کھیتوں، چراگاہوں میں پھرپھراکے واپس آجاتا۔ ماں اس کے رویے پر چونکی، مگر صرف چونکنے پر اکتفا کی۔ وہ جانتی تھی کہ مولا کے سر پر بہت سے خون سوار ہیں۔ وہ بھی جو بہا بہادئیے گئے اور وہ بھی جو بہائے نہ جاسکے۔

یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ نقارے پِٹ پٹاکر خاموش ہوگئے تھے۔ گھروں میں سحری کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ دہی بلونے اور توے پر روٹیوں کے پڑنے کی آوازیں مندروں کی گھنٹیوں کی طرح پر اسرار معلوم ہورہی تھیں۔ مولا کی ماں بھی چولہا جلائے بیٹھی تھی اور مولا مکان کی چھت پر ایک چارپائی پر لیٹا آسمان کو گھورے جارہا تھا۔ یکایک کسی گلی میں ایک ہنگامہ مچ گیا۔ مولا نے فوراً لٹھ پر گنڈاسا چڑھایا اور چھت پر سے اتر کر گلی میں بھاگا۔ ہر طرف گلی سے لالٹینیں نکلی آرہی تھیں اور شور بڑھ رہا تھا۔ وہاں پہنچ کر مولا کو معلوم ہوا کہ تین مسافر جو نیزوں، برچھیوں سے لیس تھے، بہت سے بیلوں اور گائے بھینسوں کو گلی میں سے ہنکائے لیے جارہے تھے کہ چوکیدار نے انہیں ٹوکا اور جواب میں انہوں نے چوکیدار کو گالی دیتے ہوئے کہا: ”یہ مال چوہدری مظفر الٰہی کا ہے۔ یہ گلی تو خیر ایک ذلیل سے گاؤں کی گلی ہے، چوہدری کا مال تو لاہور کی ٹھنڈک سڑک پر سے بھی گزرے تو کوئی اف تک نہ کرے!“

مولا کو کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے چوہدری مظفر خود، بہ نفسِ نفیس گاؤں کی اس گلی میں کھڑا اس سے گنڈاسا چھیننا چاہتا ہے۔ کڑک کر بولا: ”چوری کا مال میرے گاؤں سے نہیں گزرے گا، چاہے یہ چوہدری مظفر کا ہو چاہے لاٹ صاحب کا۔ یہ مال چھوڑکر چپکے سے اپنی راہ لو اور اپنی جان کے دشمن نہ بنو!“ اس نے لٹھ کو جھکاکر گنڈاسے کو لالٹینوں کی روشنی میں چمکایا۔ ”جاؤ۔“

مولا گھرے ہوئے مویشیوں کو لٹھ سے ایک طرف ہنکانے لگا۔ ”جاکر کہہ دو اپنے چوہدری سے کہ مولا گنڈاسے نے تمہیں سلام بھیجا ہے، اور اب جاؤ اپنا کام کرو۔“

مسافروں نے مولا کے ساتھ سارے ہجوم کے بدلے ہوئے تیور دیکھے تو چپ چاپ کھسک گئے۔ مولا سارے مال کو اپنے گھر لے آیا اور سحری کھاتے ہوئے ماں سے کہا: ”یہ سب بے زبان ہمارے مہمان ہیں۔ ان کے مالک پرسوں تک آنکلیں گے کہیں سے، اور گاؤں کی عزت میری عزت ہے ماں۔“

مالک دوسرے ہی دن دوپہر کو پہنچ گئے۔ یہ غریب کسان اور مزارعے کوسوں کی مسافت طے کرکے کھوجیوں کی ناز برداریاں کرتے یہاں پہنچے تھے اور یہ سوچتے آرہے تھے کہ اگر ان کا مال چوہدری کے حلقۂ اثر میں پہنچ گیا تو پھر کیاہوگا۔ اور جب مولا ان کا مال ان کے حوالے کررہا تھا تو سارا گاؤں گلی میں جمع ہوگیا تھا اور اس ہجوم میں راجو بھی تھی۔ اس نے اپنے سر پر اینڈوا جماکر ایک مٹی کا برتن رکھا ہوا تھا۔ اور منتشر ہوتے ہوئے ہجوم میں جب راجو مولا کے پاس سے گزری تو مولا نے کہا: ”آج بہت دنوں کے بعد آئی ہو راجو۔“

”کیوں؟“

اس نے کچھ یوں کہا جیسے ”میں کسی سے ڈرتی تھوڑی ہوں“ کا تاثر پیدا کرنا چاہتی ہو۔ ”میں تو کل بھی آئی تھی اور پرسوں بھی اور ترسوں بھی۔ ترسوں تھوم پیاز خریدنے آئی۔ پرسوں بابا کو حکیم کے پاس لائی تھی، کل ویسے ہی آگئیںاور آج یہ گھی بیچنے آئی ہوں۔“

”کل ویسے ہی کیوں آگئیں؟“ مولا نے بڑے شوق سے پوچھا۔

”ویسے ہی بس جی چاہا آگئے، سہیلیوں سے ملے اور چلے گئے، کیوں؟“

”ویسے ہی….“ مولا نے بجھ کرکہا۔ پھر ایک دم اسے ایک خیال آیا۔ ”یہ گھی بیچوگی؟“

”ہاں بیچنا ہے! پر تیرے ہاتھ نہیں بیچوں گی۔“

”کیوں؟“

”تیرے ہاتھوں پر میرے رشتہ داروں کا خون ہے۔“

مولا کو ایک دم خیال آیا کہ وہ اپنی لٹھ کو دالان میں اور گنڈاسے کو بستر تلے رکھ کر بھول آیا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں چُل سی ہونے لگی۔ اس نے گلی میں سے ایک کنکر اٹھایا اور اسے انگلیوں میں ملنے مسلنے لگا۔

راجو جانے کے لیے مڑی تو مولا ایک دم بولا: ”دیکھو راجو! میرے ہاتھوں پر تو خون ہے ہی، اور ان پر ابھی جانے کتنا اور خون چڑھے گا، پر تمہیں گھی بیچنا ہے اور ہمیں خریدنا ہے۔ میرے ہاتھ نہ بیچو، میری ماں کے ہاتھ بیچ دو۔“

راجو کچھ سوچ کر بولی: ”چلو…. آؤ….“

مولا آگے آگے چلنے لگا۔ جاتے جاتے جانے اسے کیا وہم گزرا کہ راجو اس کی پیٹھ اور پٹوں کو گھورے جارہی تھی۔ ایک دم اس نے پلٹ کر دیکھا۔ راجو گلی میں چگتے ہوئے مرغی کے چوزوں کو بڑے غور سے دیکھتی ہوئی آرہی تھی۔ وہ فوراً بولا: ”یہ چوزے میرے ہیں۔“

”ہوں گے۔“ راجو بولی۔

مولا اب آنگن میں داخل ہوچکا تھا، بولا: ”ماں! یہ سب گھی خریدلو۔ میرے مہمان آنے والے ہیں تھوڑے دنوں میں۔“

راجو نے برتن اتارکر اس کے دہانے پر سے کپڑا کھولا تاکہ بڑھیا گھی سونگھ لے، مگر وہ اندر چلی گئی تھی ترازو لینے، اور مولا نے دیکھا کہ راجو کی کنپٹیوں پر سنہرے روئیں ہیں اور اس کی پلگیں یوں کمانوں کی طرح مڑی ہوئی ہیں جیسے اٹھیں گی تو اس کی بھنوؤں کو مس کرلیں گی، اور ان پلکوں پر گرد کے ذرے ہیں، اور اس کے ناک پر پسینے کے ننھے ننھے سوئی کی نوک کے قطرے چمک رہے ہیں، اور نتھنوں میں کچھ ایسی کیفیت ہے جیسے گھی کے بجائے گلاب کے پھول سونگھ رہی ہو۔ اس کے اوپر ہونٹ کی نازک محراب پر بھی پسینہ ہے، اور ٹھوڑی اور نچلے ہونٹ کے درمیان ایک تِل ہے جو کچھ یوں اُچٹا ہوا سا لگ رہاہے جیسے پھونک مارنے سے اُڑجائے گا۔ کانوں میں چاندی کے بُندے انگور کے خوشوں کی طرح لس لس کرتے ہوئے لرز رہے ہیں، اور ان بُندوں میں اس کے بالوں کی ایک لٹ بے طرح الجھی ہوئی ہے۔

مولے گنڈاسے والے کا جی چاہا کہ وہ بڑی نرمی سے اس لٹ کو چھڑاکر راجو کے کان کے پیچھے جما دے یا چھڑاکر یونہی چھوڑ دے یا اسے اپنی ہتھیلی پر پھیلاکر ایک ایک بال کو گننے لگے۔

ماں ترازو لے کر آئی تو راجو بولی: ”پہلے دیکھ لے ماسی، رگڑکر سونگھ لے۔ آج صبح ہی کو تازہ تازہ مکھن گرم کیا تھا، پر سونگھ لے پہلے!“

”نہ بیٹی میں تو نہ سونگھوں گی“۔ ماں نے کہا۔ ”میرا روزہ مکروہ ہوتا ہے!“ پھر وہ راجو کو گھور گھور کر دیکھنے لگی اور کچھ دیر کے بعد بولی: ”تو غلام علی کی بیٹی تو نہیں؟“
”ہاں!“
”تو پھر جا…“ ماں نے ترازو اُٹھاکر ایک طرف پٹخ دی۔ تجھے حوصلہ کیسے ہوا میرے یہاں قدم دھرنے کا۔ رشتہ قتلوں کا اور سودے گھی کے، جا!“

پھر وہ مولا کی طرف مڑی۔ ”جن پر گنڈاسے چلانے ہیں ان سے گھی کا لین دین نہیں ہوتا میری جان! یہ گلے کی منگیتر ہے گُلے، رنگے کے بیٹے کی!“

راجو، جس کا چہرہ کانوں تک سرخ ہوگیا تھا، جلدی سے برتن پر کپڑا باندھ کر اُٹھی اور بولی: ”تمہارے سینوں میں دل ہیں یا خشخاش کے دانے۔“

مولا کے منہ پر جیسے ایک طرف اس کی ماں نے اور دوسری طرف راجو نے تھپڑ ماردیا تھا۔ وہ بھناکر رہ گیا اور جب راجو چلی گئی تو جلتی ہوئی دوپہر میں اوپر چھت پر چڑھ گیا اور چارپائی پر لیٹ گیا۔ وہ یونہی دیر تک دھوپ میں لیٹا رہا اور جب اس کی ماں اسے اُٹھانے آئی تو وہ رورہا تھا۔

”تم رورہے ہو مولے؟“ اس نے حیران ہوکر پوچھا۔
اور مولا بولا: ”تو کیا اب روئوں بھی نہیں؟“

ماں چکراکر اس کے پاس بیٹھ گئی۔ وہ بیٹے کے سوال میں اپنے سوال کا جواب ڈھونڈ رہی تھی۔

اب مولا گھر میں بھی نہیں بیٹھتا تھا۔ سارا سارا دن لاری کے اڈے پر نورے نائی کے ہاں پڑا رہتا۔ نورے نے وہاں چائے کی دُکان کھول رکھی تھی۔ شام سے پہلے جب لاری آتی تو گائوں بھر کے نوجوانوں اور بچوں کا ایک ہجوم لگ جاتا۔ سب نورے کی چائے پیتے اور ڈرائیور سے شہروں کی خبریں پوچھتے، اور مولا ان سب سے الگ ایک کھٹولے پر لیٹا آسمان کو گھورتا رہتا۔ اب لوگ مولا کے عادی ہوچکے تھے۔ وہ اس کے پاس سے حقہ تک اُٹھالاتے، مگر کسی کو اس کی لٹھ کو چھونے یا الانگنے کی جرات نہیں ہوئی، جو وہاں کھٹولے کے ساتھ لگی لاری کے انجن تک تنی رہتی تھی۔

پھر ایک روز جب شام سے پہلی لاری آکر رُکی اور اس میں سے مسافر اُترنے لگے تو ایکا ایکی جیسے سارے اڈے پر اُلو بول گیا۔ لاری میں سے رنگے کا بیٹا گُلا اُترا۔ اس کے پیچھے چار بڑے قدآور گھبرو اُترے اور پھر پانچوں ایک طرف جاکر کچھ باتیں کرنے لگے۔

مولا اس سناٹے سے چونکا اور چارپائی پر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے دیکھا کہ ہجوم سمٹ کر نورے کی دیوار کے ساتھ لگ گیا ہے اور سامنے گلا کھڑا اس کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ اس نے تیزی سے چارپائی پر سے نیچے پائوں لٹکائے اور ٹینک میں سے گنڈاسا نکال کر لٹھ پر چڑھالیا۔
”حقہ لانا نورے“ وہ پکارا۔ اور زرد رو نورا کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس کے پاس حقہ رکھ کر غراپ سے دُکان کے اندر چلا گیا۔

اب پانچوں نوروارد لاری سے کچھ فاصلے پر قطار میں کھڑے گھور گھورکر مولا کو دیکھنے لگے، جس نے بے پروائی سے ایک لمبا کش لگاکر دھواں آسمان کی طرف اُڑادیا۔

”مولے!“ گلے نے اسے للکارا۔

”کہو۔“ مولا نے ایک اور کش لگاکر اب کے دھواں گلے کی طرف اُڑادیا۔

”ہم تم سے کچھ کہنے آئے ہیں۔“
”کہو کہو۔“

”گنڈاسا ایک طرف رکھ دو۔ ہم بھی خالی ہاتھ ہیں۔“

”لو۔“ مولا نے لٹھ کو ایک طرف گرا دیا۔

پانچوں آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھنے لگے۔

ہجوم جیسے دیوار سے چمٹ کر رہ گیا۔ بچے بہت پیچھے ہٹ کر کمہاروں کے آوے پر چڑھ گئے تھے۔

”کیا بات ہے؟“ مولا نے گلے سے پوچھا۔

گلا جو اَب اس کے پاس پہنچ گیا تھا، بولا: ”تم نے چوہدری مظفر کا مال روکا تھا؟“

”ہاں“ مولا نے بڑے اطمینان سے کہا۔ ”پھر؟“

گُلے نے کنکھیوں سے اپنے ساتھیوں کو دیکھا اور اپنا گلا صاف کرتے ہوئے بولا: ”چوہدری نے تمہیں اس کا انعام بھیجا ہے اور کہا ہے کہ ہم یہ انعام ان سارے گاؤں والوں کے سامنے تمہارے حوالے کردیں۔“

”انعام!“ مولا چونکا۔ ”آخر بات کیاہے؟“

گلے نے تڑاخ سے ایک چانٹا مولا کے منہ پر مارا اور پھر بجلی کی سی تیزی سے پیچھے ہٹتے ہوئے بولا: ”یہ بات ہے۔“

تڑپ کر مولا نے لٹھ اٹھائی۔ ڈوبتے ہوئے سورج کی روشنی میں گنڈاسا شعلے کی طرح چمکا۔ پانچوں نووارد غیر انسانی تیزی سے واپس بھاگے، مگر گلا لاری کی پرلی طرف کنکروں پر پھسل کر گرگیا۔ لپکتا مولا رُک گیا، اٹھا ہوا گنڈاسا جھکا اور جس زاویے پر جھکا تھا وہیں جھکا رہ گیا….

دم بخود ہجوم دیوار سے اُچٹ اچٹ کر آگے آرہا تھا۔ بچے آوے کی راکھ اڑاتے بھاتے ہوئے اُترآئے، نورا دکان میں سے باہر آگیا۔

گلے نے اپنی انگلیوں اور پنجوں کو زمین میں یوں گاڑ رکھا تھا، جیسے دھرتی کے سینہ میں اتر جانا چاہتا ہے۔

اور پھرمولا، جو معلوم ہوتا تھا کچھ دیر کے لیے سکتے میں آگیا ہے، ایک قدم آگے بڑھا، لٹھ دور دکان کے سامنے اپنے کھٹولے کی طرف پھینک دی اور گلے کو بازو سے پکڑکر بڑی نرمی سے اٹھاتے ہوئے بولا: ”چوہدری کو میراسلام دینا اور کہنا کہ انعام مل گیا ہے، رسید میں خود پہنچانے آؤ ں گا۔“

اس نے ہولے ہولے گُلے کے کپڑے جھاڑے، اس کے ٹوٹے ہوئے طرے کو سیدھا کیا اور بولا: ”رسید تم ہی کو دے دیتا پر تمہیں تو دولہا بننا ہے ابھی…. اس لیے جاؤ، اپنا کام کرو….“

گلا سر جھکائے ہولے ہولے چلتا گلی میں مڑگیا۔

مولا آہستہ آہستہ کھاٹ کی طرف بڑھا۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہا تھا، ویسے ویسے لوگوں کے قدم پیچھے ہٹ رہے تھے۔ اور جب اس نے کھاٹ پر بیٹھنا چاہا تو اچانک کمہاروں کے آوے کی طرف سے اس کی ماں چیختی چلاتی بھاگتی ہوئی آئی اور مولا کے پاس آکر نہایت وحشت سے بولنے لگی: ” تجھے گلے نے تھپڑ مارا اور تو پی گیا چپکے سے! ارے تُو تو میرا حلالی بیٹا تھا۔ تیرا گنڈاسا کیوں نہ اٹھا؟ تونے….“

وہ اپنا سر پیٹتے ہوئے اچانک رک گئی اور بہت نرم آواز میں جیسے بہت دور سے بولی: ”تُو تو رورہا ہے مولے؟“

مولے گنڈاسے والے نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے اپنا ایک بازو آنکھوں پر رگڑا اور لرزتے ہوئے ہونٹوں سے بالکل معصوم بچوں کی طرح ہولے سے بولا: ”تو کیا اب روؤں بھی نہیں!“

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نیا قانون – سعادت حسن منٹو

دنیا بھر میں سلام کے مختلف طریقے