عام طور پر دو ملکوں کے درمیان کوئی قدرتی رکاوٹ ہی ہوتی ہے، مثلاً کوئی دریا، سمندری کھاڑی، کوئی پہاڑی سلسلہ یا کچھ اور ۔۔۔ جن کے آر پار دوسرے ممالک ہوتے ہیں۔ پھر ثقافتی و لسانی تقسیم بھی سرحدوں کا ایک اہم عنصر ہے۔ لیکن اگر آپ دنیا کا نقشہ ذرا غور سے دیکھیں تو آپ کو کئی ایسے دلچسپ مقامات نظر آئیں گے جنہیں دیکھ کر آپ کو حیرت ہوگی کہ آخر یہ کس طرح کی سرحد ہے؟
آج ہم دنیا کی کچھ ایسی ہی سرحدوں کے بارے میں بات کریں گے جنہیں آپ منفرد، دلچسپ، عجیب و غریب، حیران کُن جو چاہے کہہ سکتے ہیں۔ ان میں ہمیں سب سے منفرد افغانستان اور چین کی سرحد لگی۔ ہو سکتا ہے آپ کو حیرت ہو رہی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ افغانستان اور چین کی سرحد آپس میں ملتی ہے۔ اس سرحد کو پار کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ یہ انتہائی بلند و بالا پہاڑوں میں گھرے علاقے میں واقع ہے، جسے واخان کی پٹی (Wakhan Corridor) کہتے ہیں۔ اسے دیکھیں تو لگتا ہے کسی نے زبردستی پاکستان کو تاجکستان سے جدا کرنے اور افغانستان کو چین سے ملانے کے لیے بنایا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔
یہ پٹی دراصل 1893ء میں برٹش انڈیا یعنی برطانوی ہند اور افغانستان کے مابین ایک معاہدے کے نتیجے میں بنی تھی ۔ اسے روس اور برطانیہ کے مقبوضات کے درمیان ایک بفر زون کے طور پر بنایا گیا تھا تاکہ روس کی سرحدیں برطانوی ہند سے نہ مل سکیں۔
یہ سرحد اس لیے سب سے الگ اور سب سے جدا ہے کیونکہ آج اگر کوئی شخص واخان کی پٹی سے ہوتے ہوئے افغانستان سے چین میں داخل ہوتا ہے تو اسے اپنی گھڑی کو ساڑھے تین گھنٹے پیچھے کرنا ہوگا۔ دنیا بھر میں کوئی ایسی سرحد نہیں جسے عبور کرنے کے بعد آپ کو وقت میں اتنی تبدیلی کرنا پڑے۔ اس کی وجہ ہے پورے چین میں ایک ٹائم زون کا ہونا۔ رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا ہونے کے باوجود پورے چین میں بیجنگ کا معیاری وقت لاگو ہوتا ہے، اسی لیے آجکل یعنی جنوری میں مغربی صوبہ سنکیانگ کے شہر کاشغر میں فجر کی نماز صبح پونے 9 بجے ہو رہی ہے جبکہ سورج صبح سوا 10 بجے طلوع ہو رہا ہے۔ ہے نا حیرانگی کی بات؟
چین کے اسی صوبے سے منسلک اور ایک منفرد سرحدی گزرگاہ ہے، جسے آپ، میں اور سب جانتے ہیں، پاک-چین سرحد پر واقع درۂ خنجراب۔ یہ دنیا کے کسی بھی دو ملکوں کے درمیان سب سے بلند سرحدی گزرگاہ ہے۔ دونوں ملکوں کو جوڑنے والی شاہراہِ قراقرم اِس مقام پر 5,400 میٹرز کی بلندی سے گزرتی ہے۔
دو ملکوں کے ایک اور انوکھی سرحد فن لینڈ اور سوئیڈن کے مابین واقع ہے۔ یہ دراصل بحیرۂ بالٹک میں واقع ایک غیر آباد جزیرے مارکٹ میں ہے، جو دونوں ملکوں کے درمیان برابر تقسیم کیا گیا ہے۔ 3.3 ہیکٹر رقبے پر پھیلے اس جزیرے پر فن لینڈ نے ایک لائٹ ہاؤس یعنی روشن مینار تعمیر کیا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ مینار سوئیڈن کے علاقے میں بن گیا ہے۔ تلافی کے طور پر فن لینڈ نے جزیرے پر اتنا ہی علاقہ سوئیڈن کو دے دیا، جس کی وجہ سے اس جزیرے پر دونوں ملکوں کی سرحدیں عجیب ہی شکل میں نظر آتی ہیں۔ خود ہی دیکھ لیں۔
جغرافیے کی ایک اصطلاح ہے Panhandle یعنی فرائی پین کا دستہ۔ اس کا مطلب ہے کسی بھی ملک کا کوئی ایسا علاقہ جو دوسرے ملک کے میں بہت اندر تک چلا گیا ہو۔ واخان کی پٹی بھی دراصل ایک پین ہینڈل ہی ہے لیکن ایک منفرد پین ہینڈل ہمیں افریقہ میں بھی ملتا ہے۔ یہ نمیبیا میں واقع کاپریوی پٹی (Caprivi Strip) ہے۔ یہ 450 کلومیٹرز طویل پٹی بوٹسوانا کو انگولا اور زیمبیا سے جدا کرتی ہے نمیبیا کی سرحد تقریباً زمبابوے سے جا ملاتی ہے۔ یوں ایک جنکشن پوائنٹ بنتا ہے جہاں دو، تین نہیں بلکہ چار ملکوں کی سرحدیں آپس میں ملتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
ایک اور حیران کُن سرحد ہمیں دنیا کے ایک دُور دراز ترین علاقے میں ملتی ہے، روس اور امریکا کی ریاست الاسکا کے درمیان آبنائے بیرنگ میں۔ یہاں دو جزیرے ہیں جنہیں ڈایومیڈ جزائر کہتے ہیں۔ ان میں سے ایک جزیرہ روس کے پاس اور دوسرا امریکا کا حصہ ہے ۔ ویسے تو دونوں میں صرف 2 میل کا فاصلہ ہے لیکن ان دونوں جزیروں کے درمیان سے بین الاقوامی خطِ تاریخ (International Date Line) گزرتا ہے۔ یعنی وہ فرضی خط جس کے ارد گرد تاریخ بدلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں جزیروں میں 21 گھنٹے کا فرق ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص صرف یہ 2 میل کا فاصلہ عبور کرے گا تو اسے اپنی گھڑی کو 21 گھنٹے آگے یا پیچھے کرنا پڑے گا۔
جغرافیہ میں ایک اور اصطلاح ہے exclave، یعنی کسی ملک کا کوئی ایسا علاقہ جو مکمل طور پر کسی دوسرے ملک میں گھرا ہوا ہو۔ ایسے کئی علاقے دنیا بھر میں موجود ہیں لیکن متحدہ عرب امارات میں واقع عمان کا علاقہ مدحا اور اس کے وسط میں موجود نحوہ سب سے مختلف اور منفرد ہیں۔
مدحا کا علاقہ صرف 30 مربع کلومیٹرز پر پھیلا ہوا ہے، جس کے چاروں طرف متحدہ عرب امارات واقع ہے۔ یہاں کی کُل آبادی 3,000 ہے۔ 1930ء کی دہائی میں مدحا کے لوگوں نے شارجہ کی ریاست چھوڑ کر عمان کے ساتھ ملنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن مدحا کے درمیان میں واقع النحوہ نامی گاؤں کے بزرگوں نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور شارجہ کے ساتھ ہی رہنے کا اعلان کیا۔ یہ گاؤں تقریباً 100 گھروں پر مشتمل ہے، جو آج بھی شارجہ کا ہی حصہ ہے جو متحدہ عرب امارات میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں بہت ہی دلچسپ اور حیرت انگیز صورت حال نظر آتی ہے، ایک طرف امارات کے بیچوں بیچ میں ہمیں عمان کا علاقہ نظر آتا ہے تو وہیں اس کے قلب میں اماراتی گاؤں ملتا ہے۔
ویسے شکر ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان آزادانہ نقل و حرکت کا معاہدہ موجود ہے، ورنہ ایک گلی سے دوسری گلی میں جانے کے لیے بھی ویزا لینا پڑتا۔